صوفیا کا کلام تصور اور تصوف کو نئی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔ بر صغیر کے صوفیانہ کلام کی تحریر میں روایتًا مرد صوفیا کو شہرت حاصل رہی ہے۔ لیکن مصنف ڈاکٹر شمیم عباس کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے صوفیانہ کلام پر تحقیق شروع کی تو وہ صوفیانہ ادب میں خواتین کے نقطہ نظر سے سنائی گئی کہانیوں کے علاوہ اس میں مونث اسم کے استعمال پر بہت حیران ہوئیں۔
مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیئے۔
ماہی ماہی کوکدی نی میں آپے رانجھن ہوئی۔ رانجھن مینوں سب کوئی آکھو ہیر نہ آکھو کوئی
یہ کلام کس نے لکھا تھا اور اس میں خواتین کے نقطہ نظر سے قصے سنانے کا رواج کہاں سے شروع ہوا؟ ڈاکٹر عباس کا کہنا ہے کہ انہیں بر صغیر کےتقریبا تمام مشہور صوفیا کے کلام میں عورت کی آواز کے استعمال کی مثالیں ملتی ہیں۔ اور خواتین کے نقطہ نظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عباس نے بتایا کہ انہوں نے یہی سوال صوفی کلام سے محبت کرنے والے مشہور فنکاروں نصرت فتح علی اور عابدہ پروین سے بھی کیا تھا۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عورت کی آواز کا استعمال محض شاعری تک ہی محدود نہیں۔ ڈاکٹر عباس کا کہنا ہے کہ سندھ کے مزاروں پر صوفیانہ کلام گانے والے کئی فنکار اپنے سننے والوں کو کلام کی گہرایوں میں لے جانے کے لیے نسوانی لہجے کی نرمی بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مزاروں پر گانے والے فقیر عورت ہی کی کا صیغہ استعمال کرکے گاتے ہیں۔
ایک اور دلچسپ پہلو اس ریسرچ کا یہ تھا کہ اس میں عورت عورت کو ہی اپنا غم بتاتی ہے۔ اپنی سکھیوں کو۔ سکھی ری۔ وہ سکھی کے ساتھ ہی بات کرتی ہے۔
ڈاکٹر عباس کا کہنا ہے کہ صوفیانہ کلام میں عورت کے روز مرہ کام کاج کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے، لیکن جب عورت کسی قصے کا مرکزی کردار ہو، تو کہانی یک دم ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔
سوہنا ہوٹ پونل چھڈ کچ گیا۔ گل سوز فراق دا پچ پیا
رب آورے بھارے سہہ عمری۔ اک وار فرید یوں یار ملے
اور جیسے سسی تھی۔ وہ بڑی دبنگ قسم کی عورت تھی۔ وہ ایک راجستھانی تھی۔ اس نے پنوں کو زبر دستی اپنے ساتھ رکھا۔ یہ ساری چیزیں بہت حیران کن ہیں اور اسی لیے میرے خیال میں قدامت پسند لوگ اس انداز کے صوفیانہ کلام کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس میں بہت اہم معاشرتی مسائل اٹھائے گئے ہیں اور یہ عورتوں کے ذریعے اٹھائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر عباس کا کہنا ہے کہ یہ کلام لکھنے اور گانے والے اس زمانے میں کسی ایک جگہ قیام نہیں کرتے تھے کہ کہیں پکڑے نہ جائیں، کیونکہ اس وقت بھی اس قسم کا کلام سماج اور روایات کے خلاف احتجاج سمجھا جاتا تھا۔
رانجھن ڈھونڈن میں چلی۔ مینوں رانجھا ملیا نئیں
رب ملیا رانجھا نہ ملیا۔ رب رانجھا جیا وی نئیں
وے میں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نال
ڈاکٹر عباس کا کہنا ہے کہ احتجاج کا پہلو بابا بلھے شاہ کے کلام میں بہت نمایاں ہے، جو ان کے مرشد کو اتنا خطرناک معلوم ہوا کہ اس نے اپنے استاد کو شہر بدر کر دیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے آٹھ سال کا عرصہ گانے والیوں کے پاس گذارا۔
بلھیا نچ کے یار منایا اے۔ سارا دل دا کفر گنوایا اے
اور پھر جب وہ اپنے مرشد کو منانے کے لیے واپس آئے تو انہوں نے گانے والی کا روپ ڈھالا اور ناچ گا کر انہیں منایا۔ بعض لوگ اس کو بہت معیوب سمجھتے ہیں کہ بھلا یہ کیا بات تھی۔
تو آج کے دور میں صوفیانہ خیال کی خواتین کے لیے کیا اہمیت ہے؟ ڈاکٹر عباس کا کہنا ہے کہ جس طرح مسجد مردوں کے لیے عبادت کا مرکز ہے، اسی طرح مزاروں اور صوفی خانقاہوں نے خواتین کے لیے ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر لی ہےلیکن اس موضوع کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنے کے لئے مزید تحقیق درکار ہو گی۔