|
سپریم کورٹ |
نئی قومی عدالتی پالیسی کے مطابق آئندہ کوئی بھی حاضر سروس چیف جسٹس کسی صوبے کے قائم مقام گورنر کا عہدہ نہیں سنبھالے گا اور نہ ہی کوئی جج انتظامیہ میں عہدے پر فائز ہو گا۔پالیسی کی منظوری پیر کے روز اسلام آبا د میں نیشنل جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زیر سربراہی منعقد ہوا۔ نیوز کانفرنس میں پالیسی کی تفصیلات میڈیا کو بتاتے ہوئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار فقیر حسین نے کہا کہ اس وقت جتنے بھی جج انتظامیہ میں ڈیپوٹیشن پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں انھیں واپس عدلیہ میں بلایا جا رہا ہے تاکہ ججوں کی کمی کو پورا کر کے زیر التواء مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔
انھوں نے بتایا کہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ میں مجموعی طورپر ایک لاکھ 37ہزار سے زائد مقدمات جب کہ ماتحت عدلیہ میں 15لاکھ 65ہزار نو سو سے زائد مقدمات موجود ہیں۔ فقیر حسین نے کہا کہ پالیسی کے مطابق عدلیہ کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے ایک قومی نظام وضع کیا جار ہا ہے جس کے تحت ججوں کے خلاف کسی بھی طرح کی شکایات متعلقہ چیف جسٹس کو بھیجی جائیں جو اسے مزید کارروائی کے لیے سپریم جوڈیشل کو نسل کے سپرد کر دیں گے۔
رجسٹرار نے بتایا کہ آئندہ کوئی بھی جج ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے درجے اور وقار سے کم کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کرے گا جب کہ کسی خصوصی ٹریبیونل کے جج کے طور پر ریٹائر ڈ نہیں بلکہ حاضر سروس جج مقرر ہوں گے اور ان کی تقرری کا اختیار حکومت کو نہیں بلکہ عدلیہ کو حاصل ہونا چاہیے۔
|
سنٹرل جیل کراچی |
رجسٹرار نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور تمام چیف جسٹسوں نے انصاف کے حصول میں عوام کو درپیش مشکلات کا جائز ہ لیتے ہوئے انھیں دور کرنے اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے مختلف سفارشات مرتب کی ہیں۔ تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی نے جنوری 2009ء کے بعد درج ہونے والے ایک سے سات سال تک قابل سزا فوجداری مقدمات کو تین مہینوں میں نمٹانے کی سفارش کی ہے جب کہ مجموعی طور پر زیر التواء فوجداری مقدمات جن میں سات سال سے لے کر موت تک کی سزاموجود ہے ۔ چھ ماہ میں نمٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ فیملی مقدمات کو تین ماہ میں نمٹانے ، قتل ، منشیات اور دہشت گردی کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے ، جرمانے کی عدم ادائیگی کے باعث جیلوں میں قید خواتین اور بچوں کی رہائی سمیت مختلف سفارشات مرتب کی گئی ہیں جن پر عمل درآمد کمیٹی کا اختیار ہے ۔