دنیا بھر میں آٹھ مئی کو تھیلیسیمیاکا عالمی دن منایا جاتا ہے۔پاکستا ن کاشمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں موروثی بیماریوں میں سب سے زیادہ عام” تھیلیسیمیا“ ہے ۔ہر سال یہاں تقریباً چھ ہزاربچے اس جان لیوا بیماری کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود معاشرے میں اس مرض سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پرعدم توجہی کے باعث اس کی روک تھام کے لیے اقدامات تسلی بخش نہیں جبکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے غیر سرکاری تنظیموں کی کوششیں محدود ہیں۔ کراچی میں گذشتہ روزتھیلیسیمیا سے بچاوٴ کے لئے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عمیر ثناء فاوٴنڈیشن کے زیرِاہتمام تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں نے اس بیماری کے عالمی دن کے موقع پرچراغ روشن کیے۔ادارے کی جانب سے اس بیماری سے متعلق لوگوں کو معلومات فراہم کرنے کے لیے حال ہی میں کراچی میں تھیلیسیمیا پری ونشن سینٹر کا قیام بھی عمل میں لا یا گیا ہے جو بقول تھیلے سیمیا پری ونشن پروگرام کی مینیجر زبیدہ بحرکے شہر میں اپنی طرز کا واحد ادارہ ہے۔
تھیلیسیمیا ہے کیا؟ زبیدہ بحر نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ تھیلیسیمیا ایک موروثی جنیاتی(Genetic) بیماری ہے جو کہ ماں اور باپ دونوں سے یکساں طورپر بچوں میں منتقل ہوتی ہے اگر والدین تھیلیسیمیا مائنر(Minor) کا شکار ہوں تو ہر حمل میں 25% امکان آنے والے بچے میں تھیلیسیمیا میجر کا موجود ہوتا ہے۔ تھیلیسیمیا کی بیماری میں جسم میں لال خون کے ذرات نہیں بنتے جس کی وجہ سے بچے میں خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے۔ عام طورپر اس مرض کی علامات بچے میں 4 ماہ کی عمر سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ متاثرہ بچے کو ہر 15 دن بعد انتقال خون اور جسم سے زائد فولاد کے اخراج کے لئے ادویات کی ضرورت تاحیات رہتی ہے۔
|
زبیدہ بحر |
پاکستان میں تھیلے سیمیا سے متاثرہ مریضوں سے متعلق اعدادوشمار کے سلسلے میں سرکاری سطح پر اب تک کوئی سروے نہیں کیا جاسکا اور نیشنل ڈیٹا بیس موجود نہ ہونے کی وجہ سے تھیلیسیمیا سے متاثرہ افراد کی صحیح تعداد کا کوئی علم نہیں۔ زبیدہ بحرکا کہنا تھا کہ ملک میں تھیلسیمیا کا مرض شدت اختیار کررہا ہے اور غیر سرکاری سطح پر کیے جانے والے کئی جائزوں کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ تھیلیسیمیامیجر سے متاثرہ بچوں کی تعداد پاکستان میں 1 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور ایک کروڑ افراد تھیلیسیمیامائنر کا شکار ہیں۔ان کے بقول کراچی میں ان مریضوں کی تعداد 5000 کے قریب ہے۔ واضح رہے کہ تھیلیسیمیا موروثی مرض ہونے کے سبب ان گھرانوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں خاندانی شادیوں کا رواج ہے۔ تھیلیسیمیا مائنر عام طورپر کوئی علامات پیدا نہیں کرتا اور اسی بے خبری میں تھیلسیمیا مائنر کے حامل دو افراد شادی کرلیں تو بسااوقات یہ تلخ حقیقت تھیلیسیمیا میجر کے بچے کی صورت میں ان کے سامنے آتی ہے۔زبیدہ بحر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا واحد علاج خون کے بنیادی خلیات کی پیوند کاری(Bone marrow Transpalantation)ہے ،جس پر تقریبا ً18سے 20لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ۔اس طریقہ علاج سے صرف صاحب ِ ثروت افراد ہی استفادہ کر سکتے ہیں جب کہ بیشتر مریضوں کی زندگی کا انحصار انتقالِ خون(Blood Tranfusion)اورجسم سے زائد فولاد نکالنے کی ادویات پر ہوتا ہے اور اس پر ماہانہ اوسطا 6000روپے خرچ ہوتے ہیں جو ایک غریب آدمی کے بس سے باہر ہوتا ہے۔
اس مرض سے بچاوٴ کیسے ممکن ہے زبیدہ بحر کا کہنا ہے اس کا واحد حل شادی سے پہلے تھیلیسیمیا جین کی موجودگی کا پتا چلانے کے لئے خون کا آسان اور سادہ ساٹیسٹ کرانا ہے۔ساتھ ہی ملک بھر میں بلڈ اسکریننگ سینٹرز کا قیام اور سرکاری سطح پر شادی سے قبل تھیلیسیمیاکے اسکریننگ ٹیسٹ کے لئے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ان کے بقول یونان ،اٹلی ،ایران،سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اوربہت سے ممالک نے محض اس قانون سازی کی بدولت اپنے ملک کو اس مہلک بیماری سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کے علاو تھیلیسیمیا کے لئے نیشنل ڈیٹا رجسٹری کا قیام ، سرکاری سطح پر پولیو کی طرح اس مرض کے خاتمے کے لئے مہم کا آغاز، متاثرہ فیملی میں دورانِ حمل دسویں سے سولویں ہفتے کے اندرحاملہ خاتون کا سی وی ایس(chorionic villous sampling )کا لازم قرار دیا جانا اور چوں کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا جیسے موروثی مرض سے متعلق عدم آگہی کی وجہ سے ہی اس کے پھیلنے کی شرح میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس لیے حکومت کو لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے لئے نشرواشاعت کے تمام ذرائع بروئے کار لانے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی بھر ساتھ رہنے والے اس مہلک مرض سے لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔