جمعرات کے روز ایوانِ نمائندگان کی Appropriations Committee نے 2009 کے ضمنی بِل کی منظوری دے دی جس کے تحت عراق اور افغانستان میں امریکہ کی فوجی کارروائیوں کے لیے اور پاکستان کی اقتصادی اور دوسری ضروریات کے لیے فنڈز مہیا کیئے جائیں گے۔ اِس بل کی کل رقم 94 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ بنتی ہے جو صدر اوباما کی ابتدائی درخواست سے نو ارب ڈالر زیادہ ہے ۔ کُل رقم میں سے 81.6 ارب ڈالر عراق اور افغانستان میں امریکہ کی فوجی اور انٹیلی جینس کی کارروائیوں کے لیئے ہیں ۔ عراق میں فوجی کارروائیوں اور سفارتی سرگرمیوں کے علاوہ، 96 کروڑ اسی لاکھ ڈالر ملک میں حالات کو مستحکم کرنے اور قانون کی حکمرانی اور نظم و نسق کو بہتر بنانے کے پروگراموں پر خرچ کیئے جائیں گے۔
چار ارب ڈالر سے زیادہ رقم افغانستان کی سیکورٹی فورسز کو وسعت دینے اور ان کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر خرچ کی جائے گی جب کہ ترقیاتی سرگرمیوں، زراعت، اور قانون کی حکمرانی کے پروگراموں کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔
اِس بِل کے تحت اوباما انتظامیہ کی درخواست پر چالیس کروڑ ڈالر کی رقم پاکستان کو Counterinsurgency Capability Fund کے لیے ملے گی یعنی اس رقم سے پاکستان کی طالبان اور انتہا پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ، دو اعشاریہ تین ارب ڈالر کی رقم اقتصادی امداد، قانون کی حکمرانی کے پروگراموں، اور وفاقی اور صوبائی سطح پر نظم و نسق اور تعلیم کے لیئے مختص کی گئی ہے ۔
اِس بِل کی بعض خاص شقیں وہ ہیں جن میں پاکستان اور افغانستان کو دی جانے والی امداد کے استعمال پر امریکہ کی نگرانی کو وسعت دی گئی ہے۔ مارچ میں صدر اوباما نے جس حکمت عملی کا اعلان کیا تھا اس میں تسلسل کے لیئے ضروری ہو گا کہ امریکی کانگریس کے سامنے صدارتی رپورٹ پیش کی جائے جس میں اس بات کی تصدیق کی جائے کہ افغانستان اور پاکستان امدادی رقم کے استعمال میں مطلوبہ عزم، صلاحیت، اور یکسوئی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان کی Appropriations Committee کے چیئر مین، ریاست وسکانسن کے ڈیموکریٹک کانگریس مین، David Obey نے کہا کہ میڈیا کی ان رپورٹوں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ اس معاملے میں کانگریس اور وہائٹ ہاؤس کے درمیان اختلافات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انہیں اب بھی شبہ ہے کہ افغانستان یا پاکستا ن میں ہماری کوششوں کے اچھے نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں ، لیکن اس بِل میں کوئی شرائط عائد نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم ٹیبل مقرر کیا گیا ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کانگریس اور انتظامیہ کو پیشرفت کا جائزہ لینے کا پابند کیا گیا ہے۔
بل میں اسرائیل، مصر، لبنان، اردن ، مغربی کنارے اور غزہ کے لیئے دو ارب ڈالر کی رقم رکھی گئی ہے۔ Foreign Operations Subcommittee کی خاتون چیئر پرسن ، نیویارک کی ڈیموکریٹک رکنِ کانگریس، Nita Lowey کہتی ہیں کہ فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس میں یہ یقین دہانی کی گئی ہے کہ اقتصادی، انسانی ہمدردی اور سیکورٹی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد سے حماس کو کسی قسم کا فائدہ نہیں ہو گا۔
امریکی انتظامیہ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ۔ امریکی کانگریس کی رکن Nita Lowey کہتی ہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس رقم میں سے جو در اصل امریکہ کےٹیکس ادا کرنے والوں سے لی گئی ہے، حماس اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کو کچھ نہ ملے اور اگر مستقبل میں قومی اتحاد کی کوئی حکومت قائم ہو، تو اس کے تمام وزیر یا ان کے مساوی عہدے دار، کھلے عام اسرائیل کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کریں، دہشت گردی کو ترک کریں، اور ماضی میں کئے گئے تمام سمجھوتوں کی پابندی کا عہد کریں۔
اسرائیل کو سیکیورٹی کی امداد کے بارے میں ریپبلیکن رکن Mark Kirk نے ایک اور سمجھوتے کا ذکر کیا جس کے تحت اسرائیل کو ایرا ن کی طرف سے ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیئے ، تین کروڑ ڈالر Arrow-3 مزائل شکن نظام کے لیئے ملیں گے ۔ انھو ں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کا منصوبہ تھا کہ یہ رقم نکال دی جائے لیکن اب یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے، اور ہم تین کروڑ ڈالر کی رقم ایسے وقت میں فراہم کر رہے ہیں جب اسرائیلی وزیرِ اعظم Netanyahu اور صدر اوباما کی ملاقات ہونے والی ہے ۔
اس مسودہء قانون میں جسے کمیٹی نے پورے ایوانِ نمائندگان کے غور کے لیئے بھیجنے کا فیصلہ کیا،بین الاقوامی غذائی امداد کے لیئے پچاس کروڑ ڈالر ، اور ترقی پذیر ملکوں کومالیاتی بحران سے نکالنے کے لیئے تیس کروڑ ڈالر کی امداد کی رقم رکھی گئی ہے ۔