پاکستان میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ لوگ اپنی پسند کے بکرے ، دبنے، گائے یاقربانی کے دوسرے جانور خرید کر اپنے گھر لاتے ہیں۔ انہیں ہار پہنا کر اور بنا سنوار کر محلے بھر میں گھمایا جاتا ہے اور عید کے روز اپنے گھر میں یا پھر گلی میں اس کی قربانی کی جاتی ہے۔ امریکہ میں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ یہاں نہ تو قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں اور نہ ہی انہیں خرید کر گھر میں رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ گھر یا محلے میں قربانی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہاں قربانی کے فریضے کی ادائیگی مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔
قربانی کے لیے آپ کو یا تو کسی ایسے گروسری اسٹور پر آرڈر بک کرانا پڑتا ہے جہاں حلال گوشت فروخت ہوتا ہے یا پھر شہر سے دور کسی ذبیحہ خانے جاکر اپنی پسند کا جانور ذبحہ کرانا پڑتا ہے جو کہ ایک دشوار اور صبر آزما کام ہے۔ اکثر افراد عید سے قبل ہی اسٹور پر قربانی کے لیے اپنا آرڈر بک کرا دیتے ہیں اور عید کے روز انہیں ان کے قربانی کے جانور کے گوشت کے تیار شدہ پیکٹ مل جاتے ہیں۔
تکبیر حلال کے مالک محمد بابر گزشتہ تقریبا 20 برسوں سے یہ کاروبار چلا رہے ہیں، اور انہوں نے اسی طرح کے مواقع کے لیے حکومت سے خصوصی پرمٹ لیا ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قربانی ادا کرنے میں آسانی کے علاوہ بعض افراد یہاں اس لیے بھی آتے ہیں کیونکہ یہاں کا قربانی کروانے کا انتظام انہیں پسند ہے۔
ان کے پاس آنے والے کئی لوگوں کا تعلق میری لینڈ کے نواحی علاقوں سے ہے، لیکن بعض افراد بہت دور سے صرف عید پر قربانی کرنے کی خاطر یہاں آتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے بچوں کو خاص طور پر قربانی کا طریقہ کار دکھانے کے لیے وہاں لاتے ہیں۔
ملک سے باہر رہتے ہوئے، اور اپنوں سے دور، امریکہ میں رہنے والے پاکستانیوں نے مذہبی روایات کو نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اگلی نسل میں بھی یہی روایات زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔