|
اوباما کے پہلے سودن اور گلوبل ٹاؤن ہال میٹنگ
|
محمد عاطف
واشنگٹن ڈی سی
May 6, 2009
|
|
صدر اوباما کی صدارت کے پہلے ایک سو دنوں کا جائزہ لینے کے لیے وائس آف امریکہ نے واشنگٹن میں گلوبل ٹاؤن ہال میٹنگ کا انعقاد کیا جس میں امریکی اور غیر ملکی ماہرین نے دنیا کے مختلف حصوں سے براہِ راست شرکت کی۔ مسلم دنیا کے لیے صدر اوباما کے پیغام اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت اوباما انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج پاکستان کی اندرونی صورتِ حال ہے۔ اقتصادی ماہرین نے اوباما انتظامیہ کی معاشی پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ موجودہ اقتصادی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ نئے منصوبوں کے ذریعے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ کیا جائے۔
صدر اوباما کی صدارت کے پہلے 100 دن مکمل ہو چکے ہیں اس کے بعد سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔ مشکلات سے دوچار عالمی معیشت ، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ، شمالی کوریا کے ایٹمی عزائم اور نو ڈراما اوباما کہلانے والے پہلے سیاہ فام امریکی صدر براک حسین اوباما نے وائٹ ہاوس میں پہنچنے کے بعد ان مسائل سے نمٹنے اور عالمی منظر نامے پر امریکہ کی تصویر میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کیا اقدام کیے؟ وائس آف امریکہ اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ سکول نے ایک گلوبل ٹاون ہال میٹنگ میں اس کا جائزہ لیا۔
حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد صدر اوباما کا پہلا غیر روائتی قدم العربیہ ٹی وی کو انٹرویو دینا تھا۔ جس سے مسلم دنیا کو مثبت پیغام پہنچا یاگیا لیکن مسلم دنیا کے حوالے سے ان کا سب سے بڑا چیلنج فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ ہے۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر رابرٹ سیٹ لاف کہتے ہیں کہ صدر اوباما نے خطے کے لیے خصوصی نمائندہ نامزد کر کے یہ واضح کر دیا ہے وہ ذاتی طور پر اس معاملے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف جس چیز کا صدر کو سامنا ہے وہ ہے لیڈرشپ کا بحران فلسطینی، حماس اور صدر عباس کے درمیان بٹے ہوئے ہیں اور اسرائیلی نئی حکومت بنا رہے ہیں۔
ایران پر صدر اوباما کی حکمتِ عملی کو بش پالیسیز کے مقابلے میں یو ٹرن کہا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ایران کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی ہے۔ چند ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان امریکہ اور ایران کو مزید قریب لا سکتا ہے۔
فی الوقت امریکی میڈیا کے مطابق اوباما انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا بیرونی مسئلہ پاکستان ہے۔ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل اور اس کا براہِ راست شکار بھی ہے۔ پاکستانی عوام اور حکومت کو یہ امید تھی کہ اوباما انتظامیہ پاکستانی سرحدوں کے اندر ڈرون حملے بند کر دے گی مگر ایسا نہ ہوا اور ایک اندازے کے مطابق اب تک ان حملوں میں ڈیڑھ درجن سے بھی کم دہشت گرد اور سات سو معصوم شہری مارے جا چکے ہیں۔
رابرٹ سیٹ لاف کہتے ہیں کہ پاکستان اس وقت ہمارے لیے سب سے بڑا سیکیورٹی چیلنج ہے۔ کیونکہ یہ ایک بڑا ملک ہے ، ایٹمی طاقت ہے، چاہے وہ بش انتظامیہ ہو یا ڈیموکریٹک حکومت، ہم ہمیشہ سے پاکستان آرمی کو سپورٹ کرتے آئے ہیں مگر پاکستان آرمی کو ابھی یہ سنجیدہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں ملک کے اندر طالبان سے کیسے نمٹنا ہے اور اپنے ایٹمی اثاثوں کی کیسے حفاظت کرنی ہے۔
مائٍیکل براؤن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سلامتی کے نقطہء نظر سے عراق اہم ہے۔ پاکستان کے پاس بم ہے۔ افغانستان اہم ہے ،پاکستان کے پاس بم ہے۔ اسامہ بن لادن اہم ہے اور شائد وہ پاکستان میں ہے اور پاکستان کے پاس بم ہے۔ آپ کو بم پر نظر رکھنی ہو گی اور میرا خیال ہے اوباما انتظامیہ ایسا کرے گی۔
ملک کے اندر صدر اوباما کی پسندیدگی کا گراف ابھی بھی اونچا ہے اور عوام جو زیادہ تر وقتی صورتِ حال کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں صدر اوباما کو زیادہ سے زیادہ وقت دے رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ وہ معاشی بحران کو ختم کر پائیں گے۔
جوناتھن ایلٹر کہتے ہیں کہ لوگ بحران کا شکار ہیں اور اگر آپ کے ملک میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے بڑھ جائے تو آپ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ میں جب صدر روزا ویلٹ کے پہلے سو دنوں پر کتاب لکھ رہا تھا کہ انہوں نے کیسے مقابلہ کیا۔ ہر وہ شخص جس نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے خرچ، خرچ، خرچ۔
صدر اوباما نے جب عہدہ سنبھالا تو انہیں ملک کے اندر اور باہر سخت چیلنجز کا سامنا تھا جو مزید بگڑ رہے تھے اور اب انکے لیے H1N1یعنی سوائن فلو کی صورت میں ایک اور چیلنج آ کھڑا ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق فریکلن ڈی روزا ویلٹ کے بعد یہ کسی بھی امریکی صدر کے لیے مشکل ترین پہلے سو دن تھے۔ مگر صدر اوباما کی خود اعتمادی نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ کام واقعی ان کی زندگی کا مشکل مگر پسندیدہ ترین کام ہے۔
|
|
|