چند برس پہلے بسنت کا روائتی تہوار لاہور میں ایک بین الاقوامی ثقافتی تہوار بن گیا تھا جو بسنت نائٹ سے شروع ہوتا تھا جس کے دوران مکانوں اور بڑی عمارتوں کی چھتوں پر سرچ لائٹیں لگا کر پتنگ بازی ہوتی تھی اور ساتھ ساتھ کھانا پینا اور ثقافتی پروگرام بھی ہوتے تھے جبکہ دن میں تمام شہر میں زوردارپتنگ بازی کے ساتھ چھتوں پر پکنک کا ماحول رہتا تھا۔ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور سفارتی مشنوں کے علاوہ غیر ملکوں سے اتنے سیاح لاہور آتے تھے کہ ہوٹلوں میں بکنگ ملنا محال ہوجاتا تھا۔ پھر یکدم ایسا لگا جیسے اس تہوار کو نظر لگ گئی۔ چند منافع خوروں نے دھاتی ڈور، کیمکل ڈور اور چرخیاں فروخت کرکے سڑکوں بازاروں میں ایسے اندوہناک مناظر پیدا کیے کہ باپ اور اس کا چھوٹا بچہ موٹر سائیکل پر جارہے ہیں کہ قاتل ڈور بچے کا گلا کاٹ کے باپ کی جھولی میں ڈال دیا۔ اموات تو بسنت کے دنوں میں پہلے بھی ہوتی تھیں مگر اولاً ان کا انداز اتنا خوفناک نہیں ہوتا تھا اور دوسرے نجی الیکڑانک میڈیا اس وقت موجود نہیں تھا۔ نجی چینلز نے گردن کٹنے کے واقعات کی رپورٹنگ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ایک ایسا دباؤ پیدا کیا کہ عدلیہ نے سوموٹونوٹس لینا شروع کردیا اور ساتھ ہی معاشرتی اور سماجی دباؤ اس قدر بڑھا کہ حکومت کو خطرناک ڈور اور چرخیاں بنانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کوئی کام نہ آیا اور پتنگ بازی پر پابندی لگا کر حکومت، عوام کو خاموش کرسکی۔
لاہور کی ایک سماجی شخصیت میاں یوسف صلاح الدین نے بسنت کو ایک بین الاقوامی ثقافتی تہوار بنانے میں اہم کردارادا کیا تھا اور ان کی حویلی کی چھت پر بسنت کی دعوت میں بڑی تعداد میں غیر ملکی اہم شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ سینکڑوں برس پرانا بسنت کا ثقافتی تہوار حکومت کی بدانتظامی کا شکار ہوچکا ہے جبکہ ان کے مطابق پاکستان کو اس وقت اپنا ایک روشن ثقافتی چہرہ دنیا کو دکھانے کے لیے ایسے ثقافتی تہواروں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
|
یوسف صلاح الدین |
میاں یوسف نے کہا کہ خطرناک ڈور اور چرخیاں بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف حکومت کو مئوثر ایکشن لینا چاہیے اور ساتھ ہی وقتی طور پر بسنت کو اندرون شہر لاہور کے علاقوں تک محدود کردینا چاہیے جہاں ماضی میں گردن کٹنے کے واقعات نہیں ہوئے کیونکہ وہاں چھتیں ساتھ ساتھ ہیں اور نیچے گلیوں میں ڈور اس طرح نہیں پہنچتی جس طرح شہر کے باہر سڑکوں پر پہنچتی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے میڈیا کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ذمہ دار میڈیا کبھی بھی لاشوں کو سکرین پر نہیں دکھاتا۔ پتنگ بازی پر پابندی نے اقتصادی طور پر ان ہزاروں خاندانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جن کا روزگار پتنگ اور ڈور بنانے سے وابستہ تھا۔ لاہور میں اندرون موچی دروازہ اس کاروبار کا مرکز تھا۔ اس کاروبار سے وابستہ رانا خالد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ پانچ عشروں سے یہ کام کررہے تھے اور اچانک کام بند ہونے کے بعد ان کو ایسا لگا کہ کسی نے سزائے موت سنادی ہے۔ رانا خالد کا کہنا تھا کہ ان کا ذاتی گھر فروخت ہوچکا ہے اور وہ کرائے کے گھر میں رہ رہے ہیں ، مقروض بھی ہوگئے ہیں اور بچوں کو اچھے نمبرلینے کے باوجود آگے تعلیم کے لیے داخلے نہیں دلوا سکے ۔
گڈی فروش ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بسنت کے خلاف پراپیگنڈہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بسنت کو ہندوانہ تہوار کہا گیا ، اس کے خلاف کتابیں لکھی گئیں مگر لاہوریوں نے کسی کی نہیں سنی مگر اب ان کے الفاظ میں گڈی ڈور کی صنعت کے اندر بعض جرائم پیشہ عناصر نے قاتل ڈور اور چرخیاں بنا کر جو مصیبت کھڑی کی اس سے سب ختم ہوگیا۔انہوں نے کہاکہ حالا ت خراب ہونے کے باوجود وہ امید رکھتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا اس برس بسنت ہوگی؟ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے پتنگ بازی پر پابندی موجود ہے اور جس طرح گذشتہ برس لاہور میں بسنت کی اجازت نہیں دی گئی اسی طرح اس برس بھی ضلعی حکومت کی طرف سے متوقع طور پر بسنت کی اجازت نہیں دی جائیگی۔