Urdu ▪ وائس آف امریکہ غیر جانبدار خبریں | دلچسپ معلومات

VOANews.com

14 جنوری 2009 

آج وی او اے پر:

45 زبانوں میں خبریں
اوباما حکومت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار

January 14, 2009
Barack Obama

اگلے ہفتے جب براک اوباما صدارت کا حلف اٹھالیں گے، تو ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں پاکستان کو نمایاں مقام حاصل ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ پاکستان کو اسلامی انتہا پسندوں نے اپنا نشانہ بنا رکھا ہے، اور وہاں انتہا پسند عناصر نے پناہ لے رکھی ہے، بلکہ اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ پاکستان کی حکومت اپنی مخالف اور دوست حکومتوں کو یہ اطمینان دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کے ایٹمی ہتھیا ر پوری طرح محفوظ ہیں۔

ساری دنیا میں ایٹمی اسلحہ کے پروگراموں کو بالکل خفیہ رکھا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنے ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں بات کرنا بالکل پسند نہیں کرتیں۔ لیکن حال ہی میں پاکستان کے اعلیٰ عہدے داروں نے چند منتخب غیر ملکی صحافیوں اور ریسرچ کرنے والوں کے ساتھ اِس انتہائی حساس موضوع پر اظہارِ خیال کیا ہے۔چند روز ہوئے اخبار نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر ڈیوڈ سینگر پاکستان کی ایٹمی سیکورٹی کے انچارج جنرل خالد قدوائی کو انٹرویو کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

پاکستان میں اسلامی انتہا پسند عناصر روز بروز زیادہ دیدہ دلیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان اندیشوں نے جنم لیا ہے کہ کہیں ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں یا انہیں کوئی چُرا نہ لے۔ دسمبر میں امریکہ کے دہشت گردی اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں  دو جماعتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اوباما انتظامیہ کو پاکستان کی ایٹمی سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے۔

برطانیہ میں یونی ورسٹی آف بریڈفورڈ  کے شان گریگری کہتے ہیں کہ اب جب کہ مسٹر اوباما اپنا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، پاکستان نے اپنے ایٹمی اسلحہ کی سیکورٹی کے بارے میں اندیشوں کو دور کرنے کی مہم شروع کی ہے:

’میرا خیال ہے کہ جنرل قدوائی کی کوشش یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یہ اطمینان دلایا جائے کہ اگرچہ پاکستان میں دہشت گردی اور طالبان کے حوالے سے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، تا ہم پاکستان کی فوج پر ایٹمی ہتھیاروں کو محفوظ رکھنے کے معاملے میں پور ی طرح اعتماد کیا جا سکتا ہے۔‘

ایٹمی عدم پھیلاؤ پالیسی سنٹر کے ڈائرکٹر ہنری سوکولسکی کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے قریب ترین مغربی اتحادی امریکہ کو اور اپنے سب سے بڑے دشمن بھارت کو واضح پیغام دے رہا ہے۔ وہ بھارت سے کہہ رہا ہے کہ تم اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دو کہ تم ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہو۔ وہ امریکہ سے کہہ رہا ہے کہ ہم تمھیں کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ ہمارے ہتھیار کہاں ہیں چاہے تم ہمیں کتنی ہی رقم کیوں نہ دو۔ ہر محبِ وطن پاکستانی ان دو اہم پیغامات پر زور دینا چاہتا ہے۔

پارٹنرشپ فار گلوبل سیکیورٹی  کے کین لواونگو  کہتے ہیں کہ پاکستان کو نہ صرف بھارت کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے، بلکہ اسے یہ پریشانی بھی ہے کہ کسی بحران کی صورت میں امریکی فوجیں کمانڈو ایکشن کے ذریعے اس کے ایٹمی اسلحہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔

جنرل قدوائی پاکستان کی سٹریٹی جک پلینز ڈویژن  کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے   نیو یارک ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں کوئی خفیہ معلومات تو افشا نہیں کیں، لیکن یہ ضرور کہا کہ پاکستان کا ایٹمی سیکورٹی سسٹم ہر لحاظ سے مکمل اور ہر قسم کے نقائص سے پاک ہے۔ لیکن بعض غیر ملکی   تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کے حملے سے زیادہ بڑا خطرہ یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر ایٹمی پروگرام تک رسائی حاصل نہ کر لیں۔ اسلام آباد میں آسٹریلیا کے سابق فوجی اتاشی برائن کلوگلی  کا خیال ہے کہ اِس قسم کا امکان بہت کم ہے:

’اسلام پسند ہونا کوئی بُری بات نہیں۔ آخر پاکستان اسلامی ملک ہے۔ لیکن جو لوگ انتہا پسند ہونے کی حد تک مذہبی ہوتے ہیں، ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔یہ بات قرینِ قیاس نہیں کہ کوئی ایسا شخص چھان بین کے انتہائی سخت نظام کو جُل دے کر ایٹمی پروگرام میں کوئی ذمے دار عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔‘

لیکن بعض دوسرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اِس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ کین لواونگو  کہتے ہیں کہ جنرل قدوائی کی طرف سے ایٹمی سیکورٹی کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس میں کچھ زیادہ وزن نہیں ہے کیوں کہ پاکستان باہر کے ذرائع کو اپنی ایٹمی سیکورٹی کی تصدیق کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ یہ سب کچھ SPD کے عہدے دار کہہ رہے ہیں اور وہ کسی کو اپنے پروگرام کے نزدیک نہیں آنے دیتے جو یہ بتا سکے کہ سیکیورٹی کے انتظامات میں کِس قسم کی اصلاحات کی گئی ہیں۔
 
جنرل قدوائی نے نیو یارک ٹائمز کے ڈیوڈ سینگر  سے کہا کہ امریکہ کِس منھ سے پاکستان کو ایٹمی سیکورٹی کے بارے میں لکچر دے سکتا ہے جب کہ2007ء میں خود امریکی ایئر فورس کو 36 گھنٹے تک یہ پتہ نہیں تھا کہ اس کے بعض ایٹمی ہتھیار کہاں ہیں۔ اِس واقعے میں امریکی ایر فورس کے سیکریٹری کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

 


E-mail This Article اس صفحے کو ای میل کیجیے
Print This Article قابل چھپائی صفحہ
  اہم ترین خبر

  مزید خبریں