کیا آپ کسی ایسے کمپیوٹر کا تصور کرسکتے ہیں کہ جو اتنا چھوٹا ہوکہ وہ آپ کی قمیص کی جیب میں آجائے اس کی طاقت آج کل کے سپر کمپیوٹر سے زیادہ ہو؟ ممکن ہے کہ آپ یہ بات سن کر ہنس دیں یا انکار میں سر ہلا دیں لیکن سائنس دانوں کا کہناہے کہ اس صدی کے نصف تک ایسے ہی مختصر ترین کمپیوٹر زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے لگیں گے۔
کمپیوٹر کی عمر پچاس سال سے زیادہ نہیں ہے۔ابتدائی دور کے کمپیوٹر اتنے بڑے تھے کہ انہیں نصب کرنے کے لیے کئی بڑے کمرے درکار ہوتے تھے۔اور ان کی طاقت آج کل کے انتہائی معمولی کمپیوٹر کا عشر عشیر بھی نہیں تھی۔پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر کا سائز چھوٹا اور اس کی کمپیوٹنگ کی طاقت بڑھتی گئی۔
کمپیوٹر کی قوت کا مرکز یا اس کا دماغ مائیکروپروسیسر کہلاتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ٹرانزسٹروں سے مل کر بنتا ہے۔ ٹرانزسٹر کی دریافت صرف 60 سال پہلے ہوئی تھی۔ان دنوں کمپیوٹر میں جو مائیکرو پروسیسر استعمال کیے جارہے ہیں ان میں ٹرانزسٹروں کے لاکھوں سرکٹ موجود ہوتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مائیکرو پروسیسر بنانے والی کمپنی انٹل کے شریک بانی گورڈن براؤن نے 1965ء میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ تقریباً ہردو سال بعد کمپیوٹر کے پروسیسر کی قوت دگنی اور حجم نصف ہوتا جائے گا۔کئی عشروں سے ان کی یہ پیش گوئی پوری ہورہی ہے مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب مائیکروپروسیسر کا حجم اتنا چھوٹا ہوچکاہے کہ روایتی طریقوں سے اس کی قوت میں اضافہ اور جحم میں کمی کرنا مشکل ہے اور اب اس کے لیے متبادل طریقے ڈھونڈنے پڑیں گے۔ سائنس دان اس متبادل طریقے کو ایٹم پروسیسر کا نام دے رہے ہیں۔
فرانس کے نیشنل سائنٹفک ریسرچ سینٹر کے ایک سائنس دان کرسٹین جوکم کا کہنا ہے کہ 1947ءمیں ٹرانزسٹر ایجاد کرنے والے سائنس دانوں کو علم نہیں تھا کہ اس کی مدد سے طاقت ور کمپیوٹر بننے لگیں گے۔ ایٹم کمپیوٹر کے معاملے میں آج ہم بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں۔جوکم یورپی سائنسی تحقیقی اداروں کے سائنس دانوں کی اس 15 رکنی ٹیم کے سربراہ ہیں جو مالیکولر ٹرانزسٹر بنانے پر کام کررہی ہے۔اس ٹیم نے اپنی تحقیق کا آغاز 1990ءمیں کیا تھا اور18 سال کے عرصے میں انہیں کئی نمایاں کامیابیاں حاصل ہوچکی ہیں۔
ایک روایتی کمپیوٹر کے مائیکرو پروسیسر میں ٹرانزسٹر برقی سرکٹ بنانے کا بنیادی کام سرانجام دیتے ہیں۔ ایک جدید ترین پروسیسر میں لاکھوں ٹرانزسٹر ہوتے ہیں جن میں ہر ایک کا حجم تقریباً 100 نینو میٹر کے مساوی ہوتاہے۔سائنس دانوں کا کہناہے کہ اب وہ اٹیم کی سطح پر کمپیوٹنگ کے لیے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ اس کے لیے نینو اور پی کو ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ جب ایٹم کی سطح پر کمپیوٹنگ ہونے لگے گی تو اس سے نہ صرف پروسیسر کا حجم بہت ہی مختصر ہوجائے گا بلکہ اس کی قوت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجائے گا،کیونکہ پروسیسر میں موجود الیکٹرانک سرکٹ کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی ۔ پھر گویا آپ اپنی جیب میں ایک سپرکمپیوٹر سے کہیں زیادہ طاقت ور کمپیوٹر رکھ سکیں گے۔
جوکم کی ٹیم کے ارکان ان دنوں ایک ایسے مالیکول کمپیوٹر پر کام کررہے ہیں جو موجودہ کمپیوٹر کی طرح پروسیسنگ کا کام کرسکے گا۔جوکم کا کہنا ہے کہ ہم اس حوالے سے کام کررہے ہیں کہ ایک کمپیوٹر کے لیے ہمیں کتنے ایٹموں کی ضرورت ہوگی۔ ابھی ہمارے پاس اس کا واضح جواب نہیں ہےلیکن ہمارے سامنے اس کی واضح تصویر موجود ہے۔
سائنس دانوں کی اس ٹیم نے 30 ایٹموں کی مدد سے کمپیوٹر کا ایک ایسا الیکٹرانک سرکٹ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو14 ٹرانزسٹروں کے مساوی کام کرنے کی اہلیت رکھتاہے۔اب وہ ایک مالیکیول کے اندر کمپیوٹر کا نظام قائم کرنے اوراسے دوسرے مالیکولوں کے ساتھ منسلک کرنے کے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی پر کام کررہےہیں۔
جوکم ٹیم کے سائنس دانوں ان دنوں دو ماڈلز پر کام کررہے ہیں۔ پہلا کمپیوٹر کا روایتی ماڈل ہے جس میں کمپیوٹر کے تمام حصے روایتی انداز میں کام کرتے ہیں اور دوسرا ماڈل مالیکیول کے اندر وہ قدرتی تبدیلیاں ہیں جس کے تحت الیکٹران حرکت کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس حرکت کو کمپیوٹنگ کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ وہ ایٹم کے اندر اس کی اپنی قوت سے کام کرنے والے الیکٹرانک سرکٹ بنارہے ہیں جن کا حجم ایک نینو میٹر کے 100 ویں حصے سے بھی چھوٹا ہوگا اورجسے صرف ایٹمی خودر بین کے ذریعے ہی دیکھا جاسکے گا۔
جوکم کا کہناہے کہ ان کا کام اگرچہ بنیادی سطح کا ہے لیکن سائنس دانوں کے حلقوں میں اسے بڑے پیمانے پر سراہا جارہاہے۔اپنی ابتدائی کامیابی کے بعد جوکم کی ٹیم مالیکیول کمپیوٹر کے ایک ایسے ڈیزائن پر کام کررہی ہے جس کی قوت مستقبل کی ضروریات کے مطابق ہوگی۔