Urdu ▪ وائس آف امریکہ غیر جانبدار خبریں | دلچسپ معلومات

VOANews.com

15 جنوری 2009 

آج وی او اے پر:

45 زبانوں میں خبریں
ممبئی حملے کا مقصد پاک بھارت کشیدگی بڑھانا تھا: اسٹیفن کوہن


December 15, 2008

Indian police officers run to a new position around the landmark Taj Mahal hotel in Mumbai, India, 29 Nov 2008

معروف اسکالر اور پاکستان اور بھارت کے بارے میں کئی کتابوں کے مصنف اسٹیفن کوہن نے کہا ہے کہ ممبئی حملوں کے ذمہ دار یقیناً یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان معمولی سی جھڑپ بھی عالمی امن کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے اور امریکہ کی کوشش ہے کہ دونوں ممالک صلح جوئی کا راستہ اختیار کریں۔وائس آف امریکہ نے ان سے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا۔

ممبئی پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو شک القاعدہ پر کیا گیا لیکن جیسے جیسے ثبوت سامنے آئے تو یہ معلوم ہوا کہ ممبئی حملوں میں ملوث لوگ پاکستان سے بھارت گئے تھے اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کارروائی کا ذمہ دار پاکستان کی حکومت کو ٹھرایا جائے لیکن یہ ضرور تھا کہ ان لوگوں کے پاکستان سے تعلق کی وجہ سے پاکستان کا نام لیا جانے لگا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارتی حکومت نے پاکستان کی جانب سے حملہ آوروں کو نان اسٹیٹ ایکٹرز قرار دیئے جانے کے موقف کو مسترد کردیا تھا۔ اس سلسلے میں واشنگٹن پاکستان کے موقف سے متفق ہے یا بھارت کےموقف سے تو کوہن نے کہا۔


اس سلسلے میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ امریکہ کو اس حملے میں شامل لوگوں کے بارے میں کیا معلومات ہیں اور دوسرا یہ کہ امریکہ کس حد پاکستا ن کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ امریکہ کو یہ اندازہ ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے تھا اور وہ پاکستان سے ہی آئے تھے۔ یہ تو ہوئی تعلق کی بات۔ جہاں تک ذمہ داری کی بات ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کوئی بھی ایسا ملک جو اپنے آپ کو ایک خود مختار ملک سمجھتا ہو اسکی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس کی سرزمین کسی دوسرے ملک پر حملوں کےلیے استعمال نہ ہونے دے۔ اور اقوام متحدہ کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان اس قانون کا احترام کرتا ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کئی برسوں سے بعض عناصر دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال کررہے ہیں چاہے وہ طالبان ہوں یا پھر لشکرِ طیبہ کے لوگ۔ ظاہر ہے میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان نے دانستہ طور پر ان عناصر کو دیگر ممالک میں حملے کرنے کے لیے چھوٹ دی لیکن یہ میں ضرور کہنا چاہوں کہ انھیں روکنے میں یا تو پاکستان نے کوشش نہیں کہ یہ پھر کوشش کی تو ناکام رہا ہے۔

جب اسٹیفن کوہن سے پوچھا گیا کہ آپ نے دہشت گردوں کو روکنے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ نہ کوشش نہ کرنے کی بھی بات کی۔ یہ بتایئے کہ ایک ایسے ملک کے بارے میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے جو خود اتنی بری طرح دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہو۔ جہاں ملک کے صدر حملے ہو چکے ہوں اور ایک سابق وزیرِ اعظم کو دہشت گردوں نے نشانہ بنا دیا ہو اور جسکے اپنے شہری اس قسم کی کارروائیوں میں ہلاک ہورہے ہوں تو ان کا جواب تھا ۔


اس سلسلے میں آپ کو مختلف واقعات کو الگ الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔ جہاں تک سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں، سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی ہلاکت اور میریٹ ہوٹل میں بم دھماکے جیسے واقعات ہیں تو میں یقینی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ انھیں روکنے کی کوشش ضرور کی گئی ہوگی لیکن ان میں ناکامی رہی۔ لیکن ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد جو شواہد سامنے آئے ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آورں میں سے کچھ نے پاکستان میں تربیت بھی حاصل کی تھی اور میرے خیال سے یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کی اینٹلی جنس ایجنسیوں کو اس بات کا علم نہ ہو کہ ان کے ملک میں ایسے عناصر تربیت حاصل کررہے ہیں۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ ان ایجنسیوں نے ان کی مدد کی لیکن میرے خیال سے ان لوگوں کو روکنے کی موثر کوشش نہیں کی گئی۔پاکستان میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد مسلح کارروایئوں میں ملوث گروپس کی مخالف ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ حلقے ان گروپس کو نہ صرف حق بجانب سمجھتے ہیں بلکہ ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس معاملے میں پاکستان اکیلا نہیں ہے۔ بلکہ کسی نہ کسی موقع پر بھارت اور امریکہ بھی دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے دہشت گرد گروپس کی مدد کرتے رہے ہیں۔


وائس آف امریکہ نے کوہن سے پوچھا کہ پاکستان اور بھار ت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکہ یقیناً کوشش کرتا ہے ۔ یہ بتائیے کہ امریکہ کی کوششیں کیا دہشت گردی کے روکنے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں یا امریکہ اور بھارت مخالف گروپس میں اس احساس کے باعث کے امریکہ کا جھکاو بھارت کی جانب زیادہ ہے وہ ان دونوں ممالک کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی کارروائیوں میں زیادہ پرعزم ہوجاتے ہیں۔ 


ان کا جواب تھا کہ کارگل کے واقعے کے بعد پاکستان چاہتا تھا کہ امریکہ پاک بھارت کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے جبکہ سنہ2002 جو صورتحال پیدا ہوئی اس میں بھارت کی یہ خواہش تھی کہ امریکہ پاکستان پر دباو ڈالے۔ تو اس طرح دنوں ممالک کی خواہش پر امریکہ دونوں ممالک کی مشاورت کرتا رہا ہے۔ کارگل کے معاملے میں امریکہ پاکستان کو جبکہ سنہ2002 میں ہونے والی کشیدگی کے لیے امریکہ بھارت کو قصوروار سمجھتا ہے۔ تو ہم وقت اور موقع کی مناسبت سے اپنا کردار ادا کرتےرہے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ صورتحال زیادہ دیرپا ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان، بھارت یا پھر خود امریکہ کی چھوٹی سی بھی غلطی سے ان دونوں ممالک کےدرمیان کشیدگی تشویشناک حد تک بڑھ سکتی ہے اور ممبئی حملوں میں ملوث گروپس یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھے اوربلکہ وہ تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان باقاعدہ جنگ ہو اور امن کے لیے امریکی کوششیں ناکام ہوں۔


ان سے ایک سوال یہ تھا کہ ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد سے پاکستان نےمشتبہ گروپس اور افراد کے خلاف اب تک جو اقدامات کیے ہیں کیا انھیں نئی دہلی اور واشنگٹن میں کافی سمجھا جانا چاہیے یا اب بھی پاکستان سے ڈو مور کی بات میں کوئی وزن ہے۔


مسٹر کوہن نے کہا کہ میں بھارتی یا امریکی حکومت کی جانب سے تو کوئی بات نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ پاکستان نے اب تک جو اقدامات کیے اگر انھیں جاری رکھا جائے تو پھر بھارت کے پاس پاکستان کے خلاف انتقامی اقدامات کے لیے جواز باقی نہیں رہے گا۔ میں ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ شروع ہوجائےلیکن اس صورتحال سے نہ پاکستان کو فائدہ ہوگا نہ بھارت کو اور نہ عالمی برادری کو۔ اسی لیے امریکہ بھارت سے بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اس پورے معاملے کو ٹھنڈے دماغ سے حل کرنے کی کوشش کرے۔

 


Watch This Report اس رپورٹ کی ویڈیو
ڈاؤن لوڈ کیجیئے  (Real)
Watch This Report اس رپورٹ کی ویڈیو
Watch  (Real)
E-mail This Article اس صفحے کو ای میل کیجیے
Print This Article قابل چھپائی صفحہ
  اہم ترین خبر

  مزید خبریں
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نظرِ ثانی کی جائے: برطانوی وزیرِ خارجہ
ہانگ کانگ: فضائی آلودگی کے باعث لوگ شہر چھوڑرہے ہیں
اقوامِ متحدہ کے احاطے پر حملہ: بان گی مون کا شدید ردِ عمل
محمد آصف ڈوپ ٹیسٹ  کیس: آئی سی سی کی پی سی بی سے جواب طلبی
ملی بینڈ بیان: ’بھارت کو بن مانگے مشورے کی ضرورت نہیں‘
افغان جنرل ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوگیا
خراسان اور  پنجاب کے مابین پانچ مفاہمتی  یادداشتوں پر دستخط
مشرق وسطیٰ میں اثر ورسوخ بڑھانے کی چینی کوششیں
غزہ میں اقوامِ متحدہ کا احاطہ اور ہسپتال اسرائیلی گولا باری کا نشانہ
اوباما بش سے عبرت حاصل کریں
کیفی اعظمی کی شعری کائنات
افغانستان: ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل سمیت 13فوجی ہلاک
پاکستان نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں آٹھویں نمبر پر
مزاحیہ فنکار شکیل صدیقی وطن واپس ، انتہا پسند ہندووں کی دھمکیوں نے بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا
”ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کا تاثرغلط ہے“
بلوچستان کی واحد بڑی یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار
کراچی پولیس مقابلے میں دو اہلکار ہلاک، متعدد مشتبہ عسکریت پسند گرفتار
غزہ میں ساٹھ مقامات پر اسرائیلی بمباری، مرنے والوں کی تعداد 1000 سے زائد
فوجی کارروائی کا راستا کھلا رکھنے کے بھارتی بیانات انتہائی افسوسناک ہیں: پاکستانی دفترِ خارجہ
صدر بش کو تاریخ میں کیسے یاد رکھا جائے گا  Video clip available
امریکی میڈیا کے اہم موضوعات کا جائزہ  Video clip available
امریکہ کو ایک بار پھر انسانی حقوق کی قیادت سنبھالنی چاہیئے: ہیومن رائٹس واچ
بھارتی کشمیر میں کارروائی کے دوران حزب المجاہدین  کا کمانڈر گرفتار
کشمیر میں جاری شورش پر بننے والی بالی وڈ کی فلم ‘لمحہ’ نئے تنازع کا شکار
واشنگٹن میں حلف برداری کی تقریب کی تیاریاں زوروں پر
قرض دہندگان کی شرائط: حکومت نے گذشتہ 18دِنوں میں 206ارب روپے واپس کیے: سرکاری ذرائع
محمد آصف کا  دوبارہ ڈوپ ٹیسٹ  ہوا ہے، رپورٹ آنے پر کارروائی ہوگی: اعجاز بٹ
اوباما حکومت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار
فارسی کے بے بدل عالم پروفیسر نذیر احمد
عالمی معاشی بحران: ایشیا میں بے روزگاری میں اضافہ
امریکہ کی جانب سے سرحد پولیس کو سیکیورٹی آلات کی فراہمی
بھارت کے پاس تمام آپشن کھلے ہیں،جنرل دیپک کپور
انگلی کی لمبائی کاتعلق کامیاب کاروباری زندگی سے؟
’تارے زمین پر‘ آسکر کی دوڑ سے باہر
چمن کے راستے افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کی سپلائی بحال
”اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے تمام ممکن اقدامات کروں گا“
کوئٹہ ،ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہلکار ہلاک
گوانتا نامومیں قید سعودی شہری پر تشدد کیا گیا:امریکی اخبار
پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکی 11 رکنی کابینہ نے حلف لے لیا
شہزادہ مقرن کی رحمن ملک سے ملاقات
برطانیہ میں بلوچ قوم پرست رہنماؤں کے خلاف کارروائی: بلوچستان میں ہڑتال
پی سی بی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے: اعجاز بٹ
کپتان بننے کے لیےشعیب ملک سے بہتر کھلاڑی موجود تھے: محمد یوسف