|
بھارت: اونٹوں کی تعداد میں نمایاں کمی
|
January 7, 2009
|
|
بھارت میں ٹرانسپورٹ کے نئے نظام اور چراگاہوں میں کمی کے باعث اونٹوں کی گلہ بانی کا پیشہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور اونٹوں کی تجارت کونئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔اونٹوں کی تجارت میں یہ کمی صوبے راجستھان میں پشکار کے علاقے میں ہونے والے اونٹوں کے ایک حالیہ میلے کے دوران ظاہر ہوئی ۔راجستھان بھارت کا وہ صوبہ ہے جہاں وسیع پیمانے پر خشک سالی کے باعث مویشیوں کے ریوڑوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم بھارتی عہدے دار اونٹوں کے مالکان کی مدد پر غور کررہے ہیں۔
روایتی طور پر راجستھان کے پشکار میں ہونے والے سالانہ میلے میں بڑی تعداد میں دور دراز سے لوگ شرکت کے لیے آتے ہیں۔اس میلے میں لوک فنکار بابو سرو بھی اپنے خاندندان کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ اونٹوں کی یہ تجارت بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہناہےکہ ایک قیمتی اونٹ 50 ہزار روپوں تک کا ہوسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک نوجوان اور صحت مند اونٹ 25 سے 30 ہزار تک اور کبھی کبھی 40 ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ چھوٹا اونٹ کم قیمت میں بکتا ہے ۔
راجستھان کے محکمہ سیاحت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پنوار لیام کہتے ہیں کہ اونٹ راجستھان کے صحرائی علاقوں سے لائے جاتے ہیں اور اس میلے میں گھوڑے بھی فروخت لائے جاتے ہیں ۔ بھارت میں گھوڑے عام طورپر شادی بیاہ کی تقریبات میں استعمال ہوتے ہیں۔
روایتی طورپر اونٹ کھیتوں سے سامان اور لوگوں کی نقل و حمل ، گہرے کنووں سے پانی کھینچنے اور بیجوں سے تیل نکالنے والی روایتی کولھو میں استعمال ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے بال ، ہڈیاں ، کھال اور حتی کہ گوبر تک فروخت ہوتا ہے۔
لیکن ان دنوں اونٹوں کی تجارت مسائل کا شکار ہے۔ حالیہ برسوں میں اونٹوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ راجستھان کی ایک تنظیم کے مطابق بھارت میں 1990ءکے وسط سے اونٹوں کی تعداد میں نصف سے بھی زیادہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ تنظیم کا کہناہے کہ 2005ءمیں ان کی تعداد چھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
جین کا کہنا ہے کہ اس کمی کا ایک انداہ اونٹوں کے حالیہ میلے میں بھی دیکھنے میں آیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سال میلے میں تقریباًساڑھے 17 ہزار مویشی لائے گئے تھے جن میں اونٹ، گھوڑے اور دوسرے جانور شامل تھے۔ اس سال پچھلے سال کے مقابلے میں اونٹوں کی تعداد نمایاں طورپر کم تھی۔
راجستھان کی ایک شہری تنظیم ’دی لیگ آف پاسٹورل پیپلز‘ کا کہناہے کہ 2004ءمیں لگ بھگ 50 ہزار اونٹ میلے میں لائے گئے تھے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اونٹوں کی تجارت میں اس کمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے اہم ٹیکنالوجی کی فراوانی ہے۔ اونٹوں کو عام طورپر سامان اور لوگوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم اب ان کی جگہ ٹرک، موٹر گاڑیاں اور آمدورفت کے دوسرے جدید ذرائع لے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ جنگلات اور چراگاہوں کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ یا وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلہ بانوں کے لیے اپنے اونٹوں کو خوراک کی فراہمی مشکل ہوتی جارہی ہے ۔ خاص طورپر جب سے عدالتوں نے چند سال قبل قومی پارکوں میں جانوروں کے گھاس چرانے پر پابندی عائد کردی تھی۔
اگرچہ ماحولیات کے تحفظ سے متعلق افراد نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا لیکن اس کی وجہ سے اکثر اونٹ مالکان کو اپنے ہزاروں جانور اس لیے فروخت کرنے پڑے کیونکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ان کے لیے اپنے مویشیوں کو چارہ فراہم کرنا دشوار ہوگیا تھا۔
تاہم کسان اور گلہ بان تھوڑے بہت اونٹ پال سکتے ہیں۔تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کسی نہ کسی انداز میں اونٹوں کی تجارت پر اپنی گذر اوقات کرتے ہیں۔
بھارتی عہدے داروں کو توقع ہے کہ وہ اونٹنیوں کے دودھ کی فروخت کو فروغ دے کر ان کے ریوڑوں کو برقرار رکھنے اور گلہ بانوں کی آمدنی میں اضافے میں مدد دسکتے ہیں۔ماہر حیوانات سنگھال کہتے ہیں کہ اونٹنی کا دودھ بعض حالات میں بہت فائدہ مندہے مثلاً انسانوں میں ذیابیطس اور گیس کے مریضوں کے لیے۔ اس لیے حکومت اونٹنی کے دودھ کو ایک اضافی دودھ کے طورمتعارف کرانے کا منصوبہ بنارہی ہے اور وہ اونٹ مالکان سے یہ دودھ اچھی قیمت پر خریدرہی ہے۔
لیگ آف پاسٹورل پیپلز اور دوسری شہری تنظیمیں چاہتی ہیں کہ حکومت ان کمیونٹیز کی مدد کرے جن کی گذر اوقات کا انحصار اونٹ پالنے پر ہے۔
پشکار میں اونٹوں کے میلے میں آئے ہوئے بہت سے لوگوں نےاس خدشے کا اظہار کیا کہ جب تک گلہ بانوں کی مدد کے لیے نئی پالیسیاں نہیں بنائی جاتیں، جانوروں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی رہے گی اور ہزاروں لوگوں کو اپنی گذر اوقات میں مسلسل مشکلات کا سامنا ہوتا رہے گا۔
|
|
|