|
ڈینگی بخار کی ویکسین کی تیاری
|
آمنہ خان
واشنگٹن ڈی سی
January 5, 2009
|
|
| ڈینگی بخار پھیلانے والا مچھر
| کچھ عرصے سے پاکستان اور کئی دوسرے ایشیائی ملکوں میں ڈینگی بخار کی خبریں پڑھنے اور سننے میں آرہی ہیں۔ ایک مخصوص قسم کے مچھروں سے پھیلنے والا یہ مرض عام طور گرم علاقوں میں دیکھنے میں آتاہے۔ ڈینگی بخار پھیلانے والا مچھر صاف پانی پر رہتاہے۔ اب امریکی ریاستوں ٹیکساس اور نیو میکسیکو میں بھی ڈینگی بخار کے مریضوں کی اطلاعات آرہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال پانچ کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ٹیکساس کی سراپی کے بیٹے کو صرف بخار کی شکایت تھی۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے اسے بخار اتارنے کی دوا دی، تو بچے کی حالت مزید بگڑ گئی۔ سراپی کا کہنا تھا کہ اسپتال والوں نے دوا دینے کے بعد خون کا ٹیسٹ نہیں لیا، بلکہ بچے کو سیدھا گھر بھیج دیا۔ اگر وہ خون کا ٹیسٹ لے لیتے تو ممکن ہے انہیں بیماری کا پتہ چل جاتا۔
سراپی کا بیٹا ڈینگی بخار میں مبتلا تھا، جسے ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو عموما جوڑوں میں بہت سخت تکلیف کی شکایت ہوتی ہے۔ اس بیماری کی علامات فلو کی علامات سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن بعض اوقات یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 20 ہزار سے زائد افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر افریقہ ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں رہنے والے بچے شامل ہوتے ہیں۔
امریکی فوج کی میڈیکل کور تقریباایک سو برس سے اس بیماری پر تحقیق کر رہی ہے۔ لفٹیننٹ کرنل سٹیفن ٹھامس بینکوک میں ویکسین ڈیویلپمنٹ پروگرام کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہمارے فوجی ڈینگی فیور کا شکار ہونے لگے اور ان کے لیے اپنا کام کرنا مشکل ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں ہی فوج میں اس بخار سے بچاؤ کے لیے ویکسین پر تحقیق پر کام شروع ہوا۔
امریکہ کی آرمڈ فورسز ریسرچ انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنس ڈینگی فیور پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تلاش میں خون کے ہزاروں نمونوں پر تحقیق کرتی ہے۔ اس کا کام کسی لحاظ سے آسان نہیں کیونکہ ڈینگی وائرس کی کوئی ایک شکل نہیں۔ ڈاکٹر تھامس کا کہنا ہے کہ وہ کئی برسوں سے ڈینگی کے مریضوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں اس کا علاج دریافت کر نے کا جذبہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ تھائے لینڈ میں ڈینگی بخار کے علاج معالجے کا ایک بڑا مرکز موجود ہے۔ یہاں کی ڈاکٹر سچترا نمانتیا نے ورلڈ ہیلٹھ آرگنائزیشن کے لیے ڈینگی فیور کے نشاندہی اور علاج پر ایک کتابچہ لکھا ہے۔ وہ امریکی فوجی لیبارٹری کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں۔
ڈاکٹر نمانتیا دوسرے طبی ماہرین کے ساتھ تبادلہ خیال کرتی رہتی ہیں۔ اور وہ سب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سراپی کے بیٹے کو یقینا ڈینگی ہیموریچک فیور ہے اور وہ اس مرض کے آخری مرحلے پر ہے۔ درست علاج کے بغیر مریض ہلاک بھی ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ خون کی کمی دور کرنے کے لیےبچے کو دو مرتبہ خون دیا جا چکا ہے۔ اور اب اس کی طبیت بہت بہتر معلوم ہوتی ہے۔
سراپی اپنے بیٹے کی صحت کی بحالی سے خوش ہیں۔ لیکن ڈاکٹروں کے کہنا ہے کہ ویکسین کی مدد سے بہت سی اور جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں۔
یو ایس آرمی امریکہ اور بینکوک ،ویکسین پر تجربات کر رہی ہے۔ ڈاکٹر تھامس کہتے ہیں کہ ویکسین کی دریافت کے بعد بھی عالمی سطح پرڈینگی بخار کے پھیلاؤ کے بارے میں کئی سوال ایسے موجود ہیں جن کا جواب صرف مزید تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔
|
|
|