|
سوزی کے غریب طالب علموں کی مدد کررہی ہیں
|
جمیل اختر
واشنگٹن ڈی سی
December 11, 2008
|
|
غربت صرف پس ماندہ ممالک کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ امریکہ جیسے دنیا کے امیر ترین ملک کے کئی شہروں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں غربت، بیماری، جرائم اور کئی دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے اندورنی حصے میں ایسے ہی کئی آبادیاں موجود ہیں۔ ان علاقوں میں پڑھنے کا رجحان کم ہے اور اسکول جانے والے بہت سے بچے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔سوزی کے کا تعلق بھی واشگٹن سے ہے اور وہ ایک عرصے سے نوجوانوں کو تعلیم کی جانب متوجہ کررہی ہیں تا کہ وہ غربت اور جرائم کی دلدل سے باہر نکل اپنا مستقل سنوار سکیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں ہر سال ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں سوزی غریب اور مستحق طالب عملوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے عطیات اکھٹے کرتی ہیں۔ ان کی تنظیم کا نام ہوپ ڈریمز ہے جس کی وہ بانی اور سربراہ ہیں۔
واشنگٹن کے سیاہ فام غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے بارے میں سوزی کا کہناہے کہ ان میں جذبہ ہے ۔ ان کے پاس وسائل ہیں ، وہ پر عزم ہیں لیکن کوئی بھی اس کام کو تنہا نہیں کر سکتا اور جب حالات آپ کے اتنے زیادہ خلاف ہوں تو یہ کام اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتاہے ۔
کے نے جب ہوپ ڈریمز کی بنیاد رکھی تو وہ واشنگٹن ڈی سی کے مضافات میں ایک افریقی امریکی ہائی اسکول میں ٹیچر تھیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے طالبعلموں کے لیے کالج کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں سے بہت پریشان تھیں ۔
انہوں نے 1996 میں ہوپ ڈریمز کی بنیاد رکھی اور جب سے واشنگٹن ڈی سی میں قائم یہ فلاحی ادارہ کم آمدنی کے حامل ہائی اسکول کے 920 سے زیادہ طالبعلموں کو یونیورسٹیوں میں بھیج چکا ہے ۔
اسٹیفنی باؤلز ڈی سی کے ایک مضافات سے ایک ہائی اسکول میں پڑھنے آئیں تھیں ۔ وہ اب ایک یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کے اپنی تنظیم سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتی ہیں ۔اسٹیفنی کا کہنا ہے کہ سوزی کے بہت زیادہ محنت کر تی ہیں ۔ وہ ہمیں ہماری ضرورت کی ہر چیز فراہم کرنے کے لیے مسلسل ہماری مدد کرتی رہتی ہیں ۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہو سوزی کے ہمیں فراہم کرتی ہیں ۔
لیقونتھا کیرل ہوپ ڈریمز کے ان بہت سے گریجوایٹس میں سے ایک ہیں جو اب ایک کونسلر کے طور پر کام کررہے ہیں ۔ اب وہ یونیورسٹی کی ایک گریجوایٹ ہیں اور ہائی اسکول کے طالب علموں کی مدد کر رہی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ طالبعلم یہ جان کر کہ میں نے ہوپ ڈریمز سے کوئی اسکالر شپ لیا تھا ان سے ملنےآتےہیں۔ان کا کہناہے کہ میں یہاں اس لیے آئی ہوں کیوں کہ میں انہیں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ ہر مشکل کا حل ہے ۔ اور حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں آپ ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔آپ کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا ہو گا لیکن آپ یہ جان لیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ سے بھی زیادہ مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
کے اپنے اس یقین پر قائم ہیں کہ جو کام آسانی سے ہو جائے اسے کرنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زندگی کا اصل مزہ اس میں ہے کہ کوئی ایسا دیر پا کام کیا جائے جس کے بارے میں دوسرے یہ کہیں کہ اسے انجام نہیں دیا جاسکتا ۔
|
|
|