United States Holocaust Memorial Museum
ہالوکاسٹ انسائیکلوپیڈیا
دارفور
سن 2003 کی ابتداء سے سوڈان کی سرکاری فوج اور انکی خود مختار جنجوید ملیشیا دارفور کے مغربی علاقہ میں باغیوں سے لڑرہی ہے۔ حکومت اور جنجوید کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ باغیوں کے نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے خلاف منظم حملے جاری رکھے جائیں جن میں فور، زغاوا اور مسالٹ شامل ہیں۔ باغی فوجیں شہریوں کے خلاف کئے گئے کچھ حملوں کی ذمہ دار ہیں لیکن سوڈانی حکومت اور جنجوید نے شدید طور پر تشدد جاری رکھا ہے۔

بھوک، بیماری اور تشدد سے لاکھوں شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اورہزاروں عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ہے۔ تقریبا 25 لاکھ شہری اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اُنکے گھروں کو آگ لگا دی گئی ہے جبکہ اُن کی املاک لوٹ لی گئی ہیں۔ ھزاروں دیہات کو منظم انداز میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ 2 لاکھ سے زیادہ سوڈانی پڑوسی ملک چاڈ کی طرف بھاگ جانے پر مجبور ہو گئے ہیں لیکن اکثر لوگ ابھی بھی دارفور کی اس خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہرماہ ہزاروں شہری انتہائی دشوار صحرائی ماحول میں مناسب کھانا، پانی اور صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے سبب مررہے ہیں۔

دارفور ایک ایسی جگہ ہے جہاں 30 مختلف نسلوں کے لوگ رہتے ہیں جو سب کے سب افریقی اور مسلمان ہیں۔ جنجوید ملیشیا کو سوڈانی حکومت نے بھرتی کیا، اُنہیں مسلح کر کے تربیت دی اور اُنہیں بھرپورحمایت فراہم کی۔ یہ بھرتی کئی چھوٹے خانہ بدوش گروپوں سے کی گئی جو اپنے آپ کو عرب کہتے ہیں۔ یہ لوگ غیرعرب جماعتوں پر حملے کرتے وقت اُن پر نسلی امتیاز پر مبنی جملے کستے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، اقوام متحدہ، آزاد انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی صحافیوں کے پاس نسلی اور تصوراتی بنیاد پر ہونے والے تشدد کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔

حکومت کی سرپرستی میں کی جانے والی کارروائیوں میں یہ اقدامات شامل ہیں:

نسلی تصادم کو بڑھاوا دینا

بین الاقوامی انسانی بھلائی کی کوششوں کی رسائی میں رکاوٹ ڈالنا جس کے نتیجے میں بے دخل ہونے والے شہریوں کیلئے ایسے حالات پیدا ہو گئے جن میں زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔

بمبار ہوائی جہازوں سے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے

شہریوں کو قتل کیا گیا ہے اور انکی آبرو ریزی کی گئی ہے۔

کیونکہ اِس بات کی شہادتیں موجود تھیں کہ " شہریوں کے قتلِ عام کے اقدامات یا انسانیت کے خلاف جرم کئے جارہے تھے یا پھر ایسے اقدامات کا شدید خطرہ موجود تھا" یونئیٹد اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم نے سن 2004 میں دارفور میں قتلِ عام کی ہنگامی صورتِ حال کا اعلان کر دیا۔ اسی برس امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ دارفور میں قتلِ عام کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جنوری 2005 میں اقوامِ متحدہ کا انکوائری کمشن اِس نتیجے پر پہنچا کہ " دارفور میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ اقدامات قتلِ عام سے کم سنگین اور قابلِ نفرت نہ ہوں۔"

تجدید 2007

سرزمین دارفور میں صورتحال مسلسل خراب ہوتی جارہی ہے۔ شہریوں کے خلاف نئے حملوں، ہزاروں نئے افراد کا بے گھر ہونا، انسانی امداد کی رسائی میں مسلسل کمی واقع ہونا اور دسمبر 2006 میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی وجہ سے دارفور سے واپس چلے جانے والے انسانی بھلائی کے امدادی کارکنوں کی تعداد میں اضافہ: یہ سب ملکر دارفور کی تاریک تصویر پیش کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی بھلائی کے ادارے کے سابق سربراہ جان ایجلینڈ کے مطابق ایسی صورتِ حال ممکنہ طور پر ایسی سطح پر پہنچ سکتی ہے جہاں ہر ماہ ایک لاکھ سے زائد افراد کی جانیں ضائع ہوں۔

اقوام متحدہ کے نئے سیکٹری جنرل بان کی مون نے اعلان کیا ہے کہ دارفور کا مسئلہ ان کے لئے سب سے بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اُنہوں نے جنوری کے آخر میں افریقی یونین کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کی تاکہ البشیر پر زور دے سکیں کہ وہ اقوام متحدہ کی امن کارروائیوں سے تعاون کریں۔ اقوامِ متحدہ کے سبکدوش ہونے والے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ جنرل اسمبلی کے سابق صدر اور سویڈن کے وزیر خارجہ جان الیسن کو دارفور کے لئے خاص مندوب کی حیثیت سے مقرر کیا گيا ہے۔ جنوری 2007 کے آخر میں اقوام متحدہ کے ایک جائزہ مشن نے چاڈ اور کار کا دورہ کیا تاکہ وہاں بڑھتے ہوئے تشدد کا دائرہ اثر سوڈان سے باہر پھیلنے سے روکنے کی خاطراقوامِ متحدہ کی امن فوج کے دستوں کی وہاں تعیناتی کا جائزہ لیا جا سکے۔

چینی صدر ھوجن تاؤ نے فروری میں خرطوم کے دورے کے دوران سوڈان سے کہا کہ دارفور کا مسئلہ حل کرنے کیلئے سوڈان کو ہر صورت اقوامِ متحدہ کو ایک بڑا کردار ادا کرنے کی اجازت دینی چاہئیے۔ صدر ھو جن تاؤ نے وہاں ایک معاہدے پر بھی دستخط کئے جس کی رو سے چین نے سکول اور ایک نیا صدارتی محل تعمیر کرنے کا کام شروع کیا، چند سوڈانی اشیاء کی درامد پر محصولات میں کمی کا اعلان کیا گیا، سوڈان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کیلئے چین نے 600 یوان یعنی 7 کروڑ 74 لاکھ امریکی ڈالر یا 5 کروڑ 95 لاکھ یوروکا قرضہ فراہم کیا اور 4 کروڑ امریکی ڈالر یعنی 3 کروڑ 7 لاکھ یورو کی گرانٹ فراہم کی گئی۔

دارفور میں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کرنے کے اقدام کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اگرچہ سوڈان کے صدر البشیر نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھا کہ وہ دسمبر 2006 میں ایسی کارروائی پر رضا مند ہو جائیں گے۔ تاہم اُنہوں نے فوج کے سائز یا تشکیل، کمان اور کنٹرول کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ سوڈانی حکومت کی طرف سے بعد میں آنے والے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی افواج کو پزیرائی حاصل نہیں ہے۔ اپریل 2007 تک سوڈان کی حکومت بدستور بین الاقوامی فوجوں کی تعیناتی کی مزاحمت کر رہی ہے۔ اپریل کے شروع میں افریقی یونین کے پانچ فوجیوں کو قتل کر دیا گیا اور چاڈ میں مہاجرین کی آمد مسلسل جاری تھی۔ توقع ہے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے سوڈان کا دورہ کریں گے اور سوڈانی حکومت کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی افواج کو تعینات کرنے کی اجازت دینے سے متعلق پیغام پہنچائیں گے۔

Copyright © United States Holocaust Memorial Museum, Washington, D.C.