مادورو کا جعلی انتخاب: ‘جو ووٹ نہیں دیں گے، انہیں کھانے کو نہیں ملے گا’

منہ پر ماسک پہنے اور ہاتھوں پر دستانے چڑہائے لوگوں کے درمیان بیٹھی ہوئی ایک عورت (© Ariana Cubillos/AP Images)
کراکس، وینیزویلا میں ایک عورت 30 اپریل کو ایک "سُوپ کچن" کے باہر بیٹھی کھانے کا انتظآر کر رہی ہے۔ (© Ariana Cubillos/AP Images)

6 دسمبر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل، مادورو کی غیرقانونی حکومت کا یہ گمان پیدا کرنا کہ اگر لوگوں نے اسے ووٹ نہ دیئے تو وہ اُن سے سماجی سہولتیں واپس لے لے گی، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ وینیزویلا کے عام شہریوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر، مشیل بیچلیٹ نے وینیزویلا کے شہریوں کی سماجی سہولتیں واپس لینے کی مادورو حکومت کی دھمکیوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا، "ہمیں ان تبصروں کو دیکھ کر تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ وہ لوگ جو ووٹ دینے نہیں جائیں گے انہیں سماجی پروگراموں تک رسائی حاصل نہیں رہے گی۔ یہ لوگوں پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔”

میڈیا کی رپورٹیں دونوں دعووں کی تصدیق کرتی ہیں۔ اِن رپورٹوں کے مطابق مادورو حکومت نے ایک بار پھر غذائی امداد کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے تاکہ 6 دسمبر کے اپنے جعلی انتخابات میں لوگوں کو ڈرا دھمکا کر شریک کرایا جائے۔

روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق مادورو کی غیرقانونی حکومت کی اعلٰی عہدے پر فائز ایک شخصیت، دی اسدادو کابیلو نے ایک انتخابی مہم کے دوران کہا کہ ماؤں کو اپنے گھر کے افراد کو یہ بات بتانا چاہیے: ” جو ووٹ نہیں دیں گے، انہیں کھانے کو نہیں ملے گا۔”

 مائیکروفون کے پیچھے کھڑے اور ہاتھ اٹھائے مادورو، اوپر دیکھ رہے ہیں (© Ariana Cubillos/AP Images)
نکولس مادورو 6 دسمبر کو کراکس، وینیزویلا میں انتخابات کی خبریں دینے والے صحافیوں سے بات کر رہے ہیں۔ (© Ariana Cubillos/AP Images)

اس غیرقانونی حکومت نے اپنے جعلی انتخابات کروانے کے لیے انتخاب والے دن ملک بھر میں پولنگ سٹیشنوں پر حفاظتی تدابیر نافذ کرنے سے انکار کرکے وینیزویلا کے شہریوں کی صحتوں کو بھی خطرے میں ڈالا۔ اس طرح حکومت نے ہزاروں افراد کو نئے کورونا وائرس کے خطرات سے دوچار کر کے رکھ دیا ہے۔

یہ حرکت ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب کووڈ-19 کے ٹیسٹوں اور ہسپتالوں کا بنیادی ڈھانچہ اس عالمی وبا اور اقتصادی بدحالی کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے کورونا وائرس کے کمشن کے سربراہ، ڈاکٹر جولیو کاسترو نے حال ہی میں سی این این کو بتایا کہ اگرچہ مادورو حکومت کی جانب سے کورونا انفیکشنوں کی تعداد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ کم ہوئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کی تعداد اوپر چلی گئی ہے۔

ڈاکٹر کاسترو نے بتایا، "آپ دیکھ رہےکہ سرکاری تعداد انتہائی تیزی سے نیچے گرتی جا رہی ہے۔” مگر ہسپتالوں میں ہسپتالوں میں ڈاکٹر اس کا الٹ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "گزشتہ تین ہفتوں میں ہم نے ایمرجنسی روم میں مریضوں کی تعداد کو بڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔”

قانونی عبوری صدر خوان گوائیڈو اور عبوری حکومت نے مادورو کے دھاندلی زدہ 6 دسمبر کے انتخابات کو مسترد کیا اور وینیزویلا کے عوام کو احتجاج کے طور پر اپنی آواز بلند کرنے کے ذرائع فراہم کیے۔

وینیزویلا کے آئین کے مطابق "لا کنسلتا پاپولر” (عوامی ووٹ) کے نام سے آن لائن اور شخصی ووٹنگ کے ذریعے اُن کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم کا بندوبست کیا گیا۔ یہ ریفرنڈم 7 سے 12 دسمبر تک منعقد کیا گیا۔ 12 دسمبر کو وینیزویلا کے اندر اور وینیزویلا سے باہر ہزاروں پولنگ سٹیشنوں میں لوگوں نے ذاتی طور پر آکر ووٹ ڈالے۔

عبوری حکومت نے ہر کسی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر انتخابی کارکنوں اور ووٹروں کے لیے ذاتی حفاظت کے آلات مہیا کیے۔

آن لائن پورٹل کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے وینیزویلا کے لاکھوں شہریوں نے محفوظ طریقے سے ریفرنڈم میں حصہ لیا۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 8 دسمبر کو ریفرنڈم کے بارے میں ایک بیان میں کہا، "جمہوری طور پر منتخب قومی اسمبلی اور وینیزویلا کے عوام کی آوازیں ہی صرف وینیزویلا میں آمریت کی راہ میں رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں۔”