مریضوں کے لئے امید کی کرن: جارح سرطان کی نئی دوا

3

ایک نئی دوا اتنی موثر ہے کہ بعض قسم کے سرطانوں کے علاج کے طریقوں کو تبدیل کرکے رکھ دے گی۔

دو امریکی کمپنیوں کے سائنس دان مل کرسرکاری طور پر پی ایف 06647020 کہلانے والی ایک ایسی دوا پر کام کر رہے ہیں جو بشمول چھاتی کے کچھ سرطانوں، بیضہ دانی اور پھیپھڑوں کے سرطانوں کی ان اقسام کو نشانہ بناتی ہے جو تیزی سے پھیلتے ہیں اور جن کا علاج مشکل سمجھا جاتا ہے۔

دوا ساز کمپنی فائزر کے نیویارک میں واقع مرکزی دفتر میں کام کرنے والے مارک ڈیملن کہتے ہیں، "ہم ایک ایسے طریقۂ علاج کے بارے میں پُرامید ہیں جو سرطان کو تقریباً جڑ سے ختم کر دے گا۔"

ڈیملن اس دوا کی تیاری کے سلسلے میں ایب وائی سٹیم سینٹرکس کمپنی کے سکاٹ ڈیلا کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ کمپنی اس وقت وجود میں آئی جب [ریاست] ایلانوائے میں واقع، ایب وائی نامی کمپنی نے کیلی فورنیا میں واقع دفاعی خلیات بنانے والی ایک چھوٹی کمپنی، سٹیم سینٹرکس  کو خرید کراپنے ساتھ ملا لیا۔

ڈیملن کا کہنا ہے کہ، "ہم نے جو دوا  تیار کی ہے کہ وہ سرطانی خلیات کی جڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ ہم کیمو تھیریپی کا عمل ایسے مکمل کرتے ہیں کہ یہ دوا تقریباً ان خلیات کو ختم کر دیتی ہے۔"

چھاتی کے تیسرے مرحلے کے سرطان، بیضہ دانی کے سرطان اور ضخیم خلیات کے حامل پھیپھڑوں کے سرطان سمیت، سرطان کی جارح اقسام میں یہ مرض عام طور پر بار بار نمودار ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان اقسام کا علاج مشکل ہوتا ہے۔

'ایک تیر بہدف علاج'

چوہوں اور بندروں پر اس دوا کا استعمال محفوظ  اور موثر ثابت ہوا ہے اور اب اس کی انسانوں پر آزمائش کا عمل شروع کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

ڈیملن کا کہنا  ہے، "یہ طریقہِ علاج دراصل، ایک تیر بہدف علاج ہے۔"

ایب وائی سٹیم سینٹرکس سے وابستہ، ڈیلا وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، "تیر" سے مراد، دراصل ایک ایسا دفاعی سالمہ ہے جو سرطان کا باعث بننے والے خلیات کے ساتھ جا کر جُڑ جاتا ہے۔ چونکہ سائنس دانوں نے اس دفاعی خلیے کے ساتھ سرطان کے خاتمے والی ادویات منسلک کر رکھی ہوتی ہیں اس لئے کیمو تھیریپی کے عمل میں یہ دوا براہˏراست سرطانی خلیات پر حملہ آور ہو کر ان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

ابتدائی طور پر ان مریضوں کا تجرباتی بنیادوں پرعلاج شروع کیا گیا ہے جن کے سرطان کے مرض پر یا تو دیگر طریقہائے علاج  بےاثر رہے یا ان کا مرض علاج کے بعد دوبارہ نمودار ہو چکا ہے۔ ڈیملن کے مطابق بیضہ دانی کے سرطان میں مبتلا مریضوں کی مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی حصہ اس علاج کے بعد مثبت نتائج ظاہر کر رہا ہے۔

ڈیلا کا کہنا ہے کہ اس تجرباتی عمل کے دوران تیسرے مرحلے کے چھاتی کے سرطان اور پھیپھڑوں کے ضخیم خلیاتی سرطان کےعلاج کے بھی مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی فیصد شرح نہیں بتائی۔

بڑے پیمانے پر اس علاج کو انسانوں پر آزمانے کا سلسلہ اس سال کے اواخر میں شروع ہو رہا ہے۔

اگر یہ نئی دوا کامیاب ہوگئی تو یہ عام کیمو تھیریپی کا نعم البدل ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے بہت  کم زہریلے اثرات مرتب ہوں گے۔

ڈیملن نے کہا کہ یہ دوا معدے، معدے کی نالی اور مثانے اور خون کے سرطانوں کی جارح اقسام میں مبتلا مریضوں کے علاج کے لئے بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔