فِٹ نیس ٹریکرز میں (بائیں طرف سے) فِت بِٹ فورس، جا بون اپ، فِٹ بگ آرب اور نائیکی فیول بینڈ ایس ای شامل ہیں ۔ (© AP Images)

جب ہماری صحت کی بات ہوتی ہے تو اس سلسلے میں پہننے والی  فِٹ بِٹ یا ایپل واچ جیسی چیزوں کا مستقبل میں کافی عمل دخل ہوگا؟

آپ کی سمارٹ واچ یا آپ کے فِٹنیس ٹریکر کے ایک حقیقی ڈاکٹر کی تشخیص کا متبادل ہونے کے امکانات تو کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکیں گے مگر کیلی فورنیا میں سٹینفورڈ میڈیکل سینٹر کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ پہنے جانے والے یہ آلات آپ کے جسم کے اندر جو کچھ  ہو رہا ہے اس کے بارے میں کچھ اشارے دیں اور بعض اوقات یہ اشارے آپ کے دماغ تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ تک پہنچ جائیں۔

2017ء کے شروع میں PLOS Biology میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے میں سٹینفورڈ کے محقیقین نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ پہنے جانے والے آلات کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے 60 افراد کے ایک گروپ سے دو ارب بنیادی پیمائشوں کے وسیع اعداد و شمار جمع کرنے اور انہیں ایک ڈیٹا بیس میں درج کرنے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

جو معلومات جمع کی گئیں ان میں وزن، حرکتِ قلب کی رفتار، خون میں آکسیجن کی مقدار، جلد کا درجۂ حرارت، جسمانی حرکات و سکنات جن میں نیند، اٹھائے جانے والے قدم، پیدل چلنا، سائیکل چلانا اور دوڑنا، حراروں کا خرچ ہونا، رفتار کی شرح، اور یہاں تک کہ گاما شعاوًں اور ایکس شعاوًں کے اعداد و شمار بھی شامل تھے۔

ان تمام معلومات اور آلات سے ملنے والے مسلسل اعداد و شمار کی بدولت، محقیقن نے بتایا کہ ان کے لیے  یہ بتانا ممکن ہو گیا ہے کہ انسانی جسم کس وقت اس طرح کام نہیں کر رہا ہوتا جیسا کہ اسے کرنا چاہیے۔

بیماری سے قبل ہی آپ اچھا ہونا شروع کردیں

اس تحقیقی مطالعے کے اعلیٰ مصنف، سٹینفورڈ کے پروفیسر مائیکل سنائڈر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ تمام معلومات اکٹھی کرنے کی ٹکنالوجی ہمارے پاس اب موجود ہے۔ انھوں نے کہا، "وزن اور خون میں آکسیجن کی مقدار کے سوا، بقیہ تمام معلومات سمارٹ واچ کے ذریعے جمع کی جا سکتی ہیں۔ خون میں آکسیجن کی مقدار کا پتہ ایک خاص قسم کی پٹی کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔"

Man walking outdoors wearing a fitness tracker. (© AP Images)
ایسے آلات جو کسی فرد کے اٹھائے ہوئے قدموں کا حساب رکھتے ہیں، جلد ہی بہت زیادہ کام معمول کے مطابق کرنے لگیں گے۔ (© AP Images)

سنائڈر کہتے ہیں کہ آج کل تجرباتی سطح پر اس قسم کی بہت سی ٹکنالوجیاں دستیاب ہیں اور کمپنیاں اور محققین ان کے موثر ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو ہر چیز فوری طور پر دستیاب ہو جائے گی، لیکن سنائڈر کہتے ہیں کہ وہ دِن دور نہیں جب صارفین کسی آلے کو جسم پر لگائیں گے اور یہ آلہ از خود تمام مطلوبہ اعداد و شمار اکٹھی کرتا رہے گا۔

اس ٹیم کا کہنا ہے کہ ٹکنالوجی خون میں شوگر کی سطحوں یا پیس میکر کی کیفیت کا بھی پتہ چلا سکے گی اور بیماریوں کے روک تھام کے نظام کو تبدیل کرکے رکھ دے گی۔

اس تحقیقی مطالعے کی ایک اور مصنفہ، جیسیلن پرل ڈن کہتی ہیں، "اس ٹکنالوجی کی کارکردگی کے امکانات بہت وسیع ہیں۔"