جنگلی حیات کے لیے کامیابیوں کا سال: 2016

5

کرہ ارض پر پائے جانے والی معدومیت کے خطرے سے دوچار بعض انواع کے سلسلے میں 2016ء میں بعض اس طرح کی اچھی خبریں آئیں جن کی زبردست ضرورت تھی۔ دنیا بھر میں حکومتوں اور حامیوں نے جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے کے طریقے ڈھونڈنے، جنگلی حیات کی آبادیوں کو بڑھانے اور غیر قانونی شکار کم کرنے کے لیے مل جل کر کام کیا۔

آئیے گزشتہ سال کے دوران ہونے والی پیشرفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

دیوہیکل پانڈوں کو شدید تو نہیں مگر کم درجے کے خطرات کا اب بھی سامنا ہے

پانڈوں کے دو بچے (© AP Images)
دس سال کے عرصے میں جنگلی پانڈوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ (© AP Images)

ایک سرکردہ بین الاقوامی گروپ نے ستمبر میں دیوہیکل پانڈوں کی درجہ بندی کر کے انہیں معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست سے نکل کر کم خطرے کی فہرست میں ڈالا۔ اس کی وجہ انہیں محفوظ رکھنے کی عشروں پر محیط کوششیں، نئی تحقیق اور چینی حکومت کی ان سیاہ اور سفید رنگ کے پیارے جانوروں کی حفاظت کرنے کی کوششیں ہیں۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر [فطرت کا تحفظ کرنے والی بین الاقوامی یونین] نے خبردار کیا ہے کہ یہ "انتہائی اہم ہے کہ ان  تحفظاتی اقدامات کو جاری رکھا جائے۔" اس گروپ نے یہ انتباہ بھی کیا کہ آب و ہوا میں تبدیلی ان جانوروں کے پسندیدہ چارے، بانس کے درختوں کو تباہ کر سکتی ہے جس سے حاصل ہونے ولے فوائد ضائع ہو جانے کا احتمال ہے۔

غیر قانونی شکار کے انسداد کے اقدامات سے ہاتھیوں کی تعداد میں دوبارہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

دو ہاتھی (© AP Images)
سوانا نسل کے افریقی ہاتھیوں کی تعداد 10 سال کے عرصے میں 30 فیصد کم ہوئی ہے۔ (© AP Images)

گو کہ افریقہ کے سوانا نسل کے ہاتھیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آ رہی ہے مگر غیرقانونی شکار کے انسدادی ضوابط اور نئے قوانین، ہاتھیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ بعض جگہوں پر تو ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مثال کے طور پر یوگنڈا میں اب تقریباً 5,000 ہاتھی شمار کیے گئے ہیں جبکہ 1980 کی دہائی میں ان کی تعداد گھٹ کر 800 سے بھی کم رہ گئی تھی۔ نائجر، برکینا فاسو اور بنین کے مشترکہ محفوظ علاقے پر قائم "ویسٹ ٹرانسبورڈر پارک" میں 2003ء  سے اب تک ہاتھیوں کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔

جنگلی حیات سے متعلق ٹیکنیکل طریقوں کو بہتر بنایا گیا

لیپ ٹاپ پر ہاتھی کی تصویر اور پس منظر میں دو لوگ۔ (Woodland Park Zoo)
ایک ٹیم کے ارکان ہیکاتھون کے دوران غیر قانونی تجارت کے ایک ایپ پر کام کر کرہے ہیں۔ (Woodland Park Zoo)

2016ء  میں جنگلی حیات کی حفاظت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا پہلو سامنے آیا۔ وائلڈلائف کرائم ٹیک چیلنج اور زُو ہیکا تھان  جیسے بین الاقوامی مقابلوں کی بدولت دنیا کے بہترین اور ذہین ترین لوگ سر جوڑ کر بیٹھے تا کہ جنگلی حیات کو درپیش  بڑے بڑے چیلنجوں کے نئے حل تلاش کر سکیں۔

تلاش کیے جانے والے نئے طریقوں میں یہ چیزیں شامل ہیں: سمارٹ گھڑیوں کے لیے ایک ایسا ایپ جو استعمال کرنے والے کو جنگلی حیات کی سمگلنگ کی اطلاع دینے کے قابل بناتا ہے۔ ایک فرانزک آلہ جو گینڈوں کے غیرقانونی شکار  کے جرم میں پکڑے جانے والے شخص کو سینگوں کے لیے ہلاک کیے گئے گینڈے کے ڈی این اے سے جوڑتا ہے۔ ان آلات سے غیرقانونی شکار کرنے والوں پر مقدمات چلانے میں آسانی ہوتی ہے۔

پینگولین گشت

ایک پینگولین ماں اپنی دُم پر اپنے بچے کو لے جا رہی ہے۔ (© AP Images)
پینگولین کا غیرقانونی شکار کرنے والوں کا غلط خیال ہے کہ اس کے سکیلوں سے طاقتور دوائیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ (© AP Images)

اکتوبر میں CITES [سائٹس] کے نام سے مشہور معدومیت کی شکار انواع کے عالمی کنونشن کے ایک اجلاس میں  دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کا شکار ہونے والے ممالیہ جانور پینگولین کی تجارت پر مکمل طور پر پابندی عائد کی گئی۔

اسی کانفرنس میں مشہور سرمئی افریقی طوطوں کو بھی عالمی تجارت سے تحفظ فراہم کیا گیا۔ یہ پرندے قیمتی شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ انسانی بولیوں کی نقالی کرتے ہیں۔