United States Holocaust Memorial Museum The Power of Truth: 20 Years
Museum   Education   Research   History   Remembrance   Genocide   Support   Connect
Donate

 

 

Voices on Antisemitism — A Podcast Series

Charles H. Ramsey

January 14, 2010

Charles H. Ramsey

Police Commissioner, Philadelphia, Pennsylvania

As Chief of Police in Washington D.C., Charles Ramsey developed a training program for law enforcement officers in conjunction with the United States Holocaust Memorial Museum and the Anti-Defamation League. Now in its eleventh year, the program examines the history of the Holocaust in order to help officers reflect on their personal and professional responsibilities.

RSS Subscribe | Download | Share | Comment

Download audio (.mp3) mp3 – 8.14 MB »

Transcript also available in:
English
Português (BR)


Transcript:

چارلز ایچ ریمزی
پولیس کمشنر ، فلاڈیلفیا ، پینسلوانیا
واشنگٹن ڈی سی میں پولیس کے سربراہ ہونے کے ناطے چارلز ریمزی نے یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم اور ازالہ حیثیت عرفی کے خلاف مخالف لیگ کے ساتھ مل کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کے لئے ایک تربیتی پروگرام تیار کیا ہے۔ اس پروگرام میں، جو اب اپنے گیارھویں سال میں ہے، افسران کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر غور و فکر کرںے میں مدد دینے کیلئے، ہولوکاسٹ کی تاریخ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
چارلز ریمزی:
ایک پولیس کا افسر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ایک جمہوری معاشرے میں قانون کے نفاذ کے لئے ذمہ دار شخص ہونے کا کیا مطلب ہے، جہاں آپ اپنے کردار کو لوگوں کے آئینی حقوق کی حفاظت کرنا سمجھتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ زیادہ تر پولیس کے افسران اپنے آپ کو آئين کے رکھوالے نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے آپ کو صرف قانون نافذ کرنے والے افسران سمجھتے ہيں؛ لیکن تمام قوانین جائز نہیں ہیں۔ اور جب آپ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی میں پیش آنے والے واقعات پر غور کرتے ہیں تو اسی قسم کے سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔

الیسا فشمین:
واشنگٹن ڈی سی میں پولیس کے سربراہ ہونے کے ناطے چارلز ریمزی نے یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم اور ازالہ حیچیت عرفی کی مخالف لیگ کے ساتھ مل کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کے لئے ایک تربیتی پروگرام تیار کیا ہے۔ اس پروگرام میں، جو اب اپنے گیارھویں سال میں ہے، افسران کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر غور و فکر کرںے میں مدد دینے کیلئے، ہولوکاسٹ کی تاریخ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یہ سوچ بچار کی ایک مشق ہے جسے ریمزی نے اپنے پیشے کیلئے اور فلاڈیلفیا کے پولیس کمشنر کی حیثیت سے اپنے موجودہ عہدے کیلئے مفید پایا ہے۔

سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونیٹیڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے جو اولیور اور الیزابیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں آپ کی میزبان، الیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ان مختلف عوامل پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جن کے ذریعے سام دشمنی اورنفرت ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ فلاڈیلفیا سے، چارلز ریمزی۔

چارلز ریمزی:
1998 میں جب میں نے واشنگٹن ڈی سی میں پولیس چیف کا عہدہ سنبھالا، مجھے امریکہ کے ہولوکاسٹ میوزیم کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ جو تصاویر میں نے ادھر دیکھیں، وہ میری آنکھوں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہی تھیں۔ لیکن میں یقینی طور پر یہ نہیں کہ سکتا کہ میری پریشانی کی اصل وجہ کیا تھی۔ اور میں کچھ دنوں بعد واپس آیا اور دوسری بار نظر ڈالتے ہوئے مجھے اپنی پریشانی کا سبب معلوم ہوا۔ وہ تھا ہولوکاسٹ میں پولیس کا کردار، جس سے میں پہلے دورے میں بالکل ناآشنا تھا۔ پھر میرے ذہن میں سوالات اٹھے: جرمنی تو ایک جمہوری معشرہ تھا۔ پھر یہ سب کیسے ہوا؟ وہ پولیس افسر جنہوں نے شاید اسی قسم کا حلف اٹھایا تھا حیسے میں نے اٹھایا ہے، وہ کس طرح اتنی بھیانک چیز کا حصہ بن سکتے تھے؟ اور پھر میں نے سوچا کہ اگر ہم پولیس افسران کو یہاں لائيں اور جو ہوا ان کو سب کچھ دکھائيں، اور ان کو دیگر افراد کے آئینی حقوق کے رکھوالوں کی حیثیت سے ان کو ان کے کردار سے آشنا کروائيں تو شاید ہم اس ہولوکاسٹ کے تجربے سے کچھ قیمتی سبق حاصل کرسکیں۔ اور ہم نے ایک ساتھ مل کر ایک نصاب تیار کیا جس کو بعد میں واشنگٹن میں میٹرو پولیٹن پولیس ڈپارٹمنٹ میں پیش کیا گیا اور اس وقت سے بڑھتے بڑھتے 50،000 سے زائد افسروں نے یہ نصاب لیا ہے۔

بنیادی طور پر اس وقت میں نے میوزیم میں اپنا دورہ ختم کیا اور میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان کو درپیش موجودہ مسائل کے بارے میں کچھ سوچا۔ پھر سے کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ 9-11 سے پہلے ہوا اور اس وقت قانون کے نفاذ میں نسل کی پروفائلنگ کا موضوع یقینا سب سے گرم موضوع تھا۔ پھر میں نے ایک دوسری تصویر دیکھی جس میں ایک "آزاد کیا گیا" آدمی اپنے ہاتھ میں کسی قسم کے کھانے کا کٹوارا لیے ہوئے بیرکوں کے باہر بھیٹا کیمرے کی طرف دیکھ رہا تھا، اس تصویر کو دیکھ کر مجھے صدمہ ہوا۔ اس کی آنکھوں کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم کی آزادی محسوس نہیں کررہا ہے اور وہ تصویر کھیچنے والے کو اپنے حامی یا سرپرست کی حیثیت سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس تصویر میں میرے صدمے کا باعث یہ تھا کہ اس آدمی کی آنکھوں میں جو میں نے دیکھا وہ میں نے ہمارے زیر نگرانی برادریوں کے افراد کی آنکھوں میں بھی دیکھا ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے لوگ ہمیں بھی اپنے حامی کی حیثیت سے نہیں دیکھتے ہيں۔ اور ایسا کیوں ہے؟ لہذا یہی وہ سوالات ہیں جن کیلئے میں جواب ڈھونڈنا چاہتا تھا۔

اور میں نے سوچا کہ نسلی پروفائلنگ، جانبدار پولیس گیری جیسے حساس مسائل سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قدیم حقیقی تاریخی واقعات کے ذریعے اس کا جائزہ لیا جائے تاکہ کمرے میں بیھٹے لوگ ان واقعات کا حصہ نہ ہوں۔ سو جب آپ حالیہ نسلی مسائل کے بارے میں بات کرنا شروع کرتے ہیں تو فوری طور پرجذباتی دفاع پیدا نہ ہو۔ اس کو اسطرح کرنے سے ہر شخص غفلت سے نکل کر موضوع کی طرف دھیان دینے لگتا ہے۔ وہ تھوڑی بہت الجھن میں تھے کہ وہ وہاں کیوں ہیں مگر جب ہم نے اصل مسئلہ پر روشنی ڈالنی شروع کی کہ لوگ بعض اوقات ایسا محسوس کیوں کرتے ہیں — قانون کے نفاذ کی تاریخ کیا ہے، صرف امریکہ میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں اور یہ جاننے کیلئے لوگ ہماری طرف شک بھری نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں — پھر میں نے سوچا کہ مخالفانہ کارروائیوں کے بغیر آپ مفید اور منصفانہ مکالمہ کرسکتے ہیں۔

یہ پولیس آفسروں کے لئے مشکل ہے کہ وہ اپنے اندر کے تعصب سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔ میرا مطلب ہے ، ہمیں سڑک پر روزمرہ کی بنیاد پر ایسی چیزوں سے نمٹنا پڑتا ہے اور ہم ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو اکثر لوگوں کو درپیش نہ ہوں، خدا کا شکر ہے۔ اور ان کو اپنے اندر سے نکالنا بہت مشکل ہے، مگر آپ کو ان سے لڑنا ہوگا۔ اور یہ بعض صورتوں میں روزانہ کی ایک کش مکش ہے۔ مگر آپ ایسی صورتحال پیدا نہیں کرسکتے ہیں جہاں تمام گروپوں پر لیبل ڈالنا شروع کریں، یا یہ سوچیں کہ سب لوگ غنڈے اور بدمعاش ہیں اور صرف اپنے بعض تجربوں کی بنیاد پر مختلف قسم کے ان گنت وسیع تنائج پر پہنچيں۔ آپ ایسا نہيں کرسکتے ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی اقدار کا تباہ ہوجانا بہت آسان ہے۔ اور ایک طریقے سے ایسا دس سال تک جرمنی میں ہوتا رہا ہے۔ اقدار اور اصول وقت کے ساتھ ساتھ تباہ ہوتے گئے اور ان کا نتیجہ بھیانک تھا۔ ہمارا حلف ایک خاص معنی کا حامل ہے، اگر ایسا نہ ہو تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ افسران کو یہ معلوم ہونا چایئے کہ وہ تنظیم اور پیشے کی حیثیت سے کیوں موجود ہيں۔ میں اسے جتنا بیان کروں وہ کم ہے۔
الیسا فشمین:
سام دشمی کے خلاف آوازیں یونائیٹڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میموریل میزیم کی ایک پاڈ کاسٹ سیریز ہے۔ ہماری آج کی دنیا میں مسلسل جاری سام دشمنی کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر سننے کیلئے ہر ماہ یہ سیریز سماعت فرمائیے۔
ہم چاہیں گے کہ آپ اس سیریز کے بارے میں اپنی رائے ہم تک ضرور پہنچائیں۔ براہ مہربانی ہماری ویب سائیٹ
www.ushmm.org دیکھئیے اور سام دشمنی کے خلاف آوازیں کے سروے پر کلک کیجئیے۔ آپ ہماری ویب سائیٹ پر وائسز آن جینوسائیڈ پری وینشن بھی سن سکتے ہیں جو موجودہ نسل کُشی کے بارے میں ایک پاڈ کاسٹ سیریز ہے۔

 


 

Available interviews:

Jamel Bettaieb
Jeremy Waldron
Mehnaz Afridi
Fariborz Mokhtari
Maya Benton
Vanessa Hidary
Dr. Michael A. Grodin
David Draiman
Vidal Sassoon
Michael Kahn
David Albahari
Sir Ben Kingsley
Mike Godwin
Stephen H. Norwood
Betty Lauer
Hannah Rosenthal
Edward Koch
Sarah Jones
Frank Meeink
Danielle Rossen
Rex Bloomstein
Renee Hobbs
Imam Mohamed Magid
Robert A. Corrigan
Garth Crooks
Kevin Gover
Diego Portillo Mazal
David Reynolds
Louise Gruner Gans
Ray Allen
Ralph Fiennes
Judy Gold
Charles H. Ramsey
Rabbi Gila Ruskin
Mazal Aklum
danah boyd
Xu Xin
Navila Rashid
John Mann
Andrei Codrescu
Brigitte Zypries
Tracy Strong, Jr.
Rebecca Dupas
Scott Simon
Sadia Shepard
Gregory S. Gordon
Samia Essabaa
David Pilgrim
Sayana Ser
Christopher Leighton
Daniel Craig
Helen Jonas
Col. Edward B. Westermann
Alexander Verkhovsky
Nechama Tec
Harald Edinger
Beverly E. Mitchell
Martin Goldsmith
Tad Stahnke
Antony Polonsky
Johanna Neumann
Albie Sachs
Rabbi Capers Funnye, Jr.
Bruce Pearl
Jeffrey Goldberg
Ian Buruma
Miriam Greenspan
Matthias Küntzel
Laurel Leff
Hillel Fradkin
Irwin Cotler
Kathrin Meyer
Ilan Stavans
Susan Warsinger
Margaret Lambert
Alexandra Zapruder
Michael Chabon
Alain Finkielkraut
Dan Bar-On
James Carroll
Ruth Gruber
Reza Aslan
Alan Dershowitz
Michael Posner
Susannah Heschel
Father Patrick Desbois
Rabbi Marc Schneier
Shawn Green
Judea Pearl
Daniel Libeskind
Faiza Abdul-Wahab
Errol Morris
Charles Small
Cornel West
Karen Armstrong
Mark Potok
Ladan Boroumand
Elie Wiesel
Eboo Patel
Jean Bethke Elshtain
Madeleine K. Albright
Bassam Tibi
Deborah Lipstadt
Sara Bloomfield
Lawrence Summers
Christopher Caldwell
Father John Pawlikowski
Ayaan Hirsi Ali
Christopher Browning
Gerda Weissmann Klein
Robert Satloff
Justice Ruth Bader Ginsburg