صفحہ اول | مرکزی کمان کے متعلق | ہماری تاریخ
امریکی مرکزی کمان کی تاریخ

امریکہ کی مرکزی کمان یو ایس سنٹکام کا قیام یکم جنوری 1983 کو عمل میں آیا۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے امریکہ کا مرکزی کمان کرہ ارض کے 'وسطی' حصے جو یورپی اور پیسفک کمانڈ کے درمیان واقع ہے، پر محیط ہے۔ ایران میں یرغمالیوں کے مسئلے اور افغانستان پر روس کے حملے کی وجہ سے اس خطے میں امریکہ کے مفادات کے تحفظ کی ضرورت کی اہمیت کا اندازہ لگایا گیا تو صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے مارچ 1980 میں جدید تعمیری مشترکہ ٹاسک فورس (Rapid Deployment Joint Task Force - RDJTF) قائم کی۔ خطے کے مسائل کے زیادہ مضبوط اور دیرپا حل پیش کرنے کے لیے صدر رونالڈ ریگن (Ronald Reagan) نے RDJTF کو دو سالہ کی مدت کے لیے مستقل متحدہ کمانڈ میں تبدیل کر دیا۔  اس سلسلے میں پہلا قدم RDJTF کو امریکہ کی Readiness Command سے علیحدہ کرنے کی شکل میں اٹھایا گیا جس کے بعد جنوری 1983 میں یو ایس سینٹکام کو فعال کر دیا گیا۔ اس تاثر کو کہ کمانڈ اب بھی RDJTF کا ہی دوسرا نام ہے اور یہ حکمت عملی جو سرد جنگ کے تناظر میں اپنائی گئی تھی کو زائل کرنے میں طویل عرصہ لگ گیا۔ ایران عراق جنگ نے خطے میں موجود کشیدگی کو سامنے لا کھڑا کیا اور خلیج فارس  میں ایرانی کان کنی کی کارروائیاں امریکی سینٹکام کی پہلی جنگی کارروائی ثابت ہوئی۔

1988 کے اواخر تک علاقائی حکمتِ عملی اسی مفروضے پر قائم تھی کہ روس کسی بھی وقت ایران پر بڑا حملہ کر سکتا ہے۔ تاہم یو ایس سینٹکام کے نئے سربراہ جنرل ایچ نارمن شوارزپوف H. Norma Schwarzkopf کا یہ ماننا تھا کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں اس کا امکان کہیں زیادہ کم ہو گیا ہے۔ انہوں نے خطے میں توجہ عراق میں صدام  حسین کے ابھرتے ہوئے نئے خطرے پرمرکوز کی اوراپنے خدشات کا 1990 کے موسمِ سرما کی فوجی مشقوں Internal Look میں کُھل کر اظہار کیا۔ دلچسپ امر یہ کہ مشقوں کے لیے کی گئی منصوبہ بندی اور کویت پر حملہ کرتے ہوئے عراقی فوجوں کی پیش قدمی میں کافی حد تک مشابہت تھی۔ امریکی صدر جارج بش نے فوری جواب دیا اور فوجوں کی بروقت کارروائی سے عراق کو سعودی عرب پر حملے سے روک دیا جبکہ کویت کو آزاد کرانے کے لیے کارروائی شروع کر دی۔ فوج کی تعیناتی بڑھتی گئی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 678 میں کویت سے عراق کو نکالنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 17 جنوری1991 کو امریکی اور اتحادی فوجوں نے بھاری فضائی حملے سے کاروائی صحرائی طوفان (Operation Desert Storm) کا آغاز کیا جس نے اتحادی فوجوں کے زمینی حملے کے لیے راہ ہموار کی۔ 27 فروری کو اتحادی فوجوں کا پہلا ہدف کویت کی آزادی حاصل ہو گیا اور زمینی کارروائی شروع ہونے کے محض 100 گھنٹوں کے اندر جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔

باقاعدہ تصادم کے اختتام سے عراق سے جنم لینے والی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ مہم برائے فراہمی آرامOperation Provide  Comfort کے ذریعے کردوں کو انسانی بنیادوں پر امداد پیش کی اور اپریل 1991 میں عراق میں 36th پیرالل کے شمال میں پروازوں کے خلاف زون قائم کر دی گئی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 688، جس میں صدام حسین کے حکم پر جنوبی عراق میں عوام کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی تھی پرعمل درآمد نہ کرنے پر اگست 1992 میں Operation Southern Watch شمالی نگرانی کی مہم  شروع کی گئی۔ مشترکہ ٹاسک فورس سائوتھ ویسٹ ایشیا کی کمانڈ اور کنٹرول کے تحت اتحادی فوجوں نے 32nd پیرالل کے جنوب میں پروازوں کے خلاف ایک خطہ مقرر کیا۔ جنوری 1997 میں مہم برائے فراہمی آرام کی جگہ جنوبی نگرانی کی مہم شروع کی گئی جس کا مقصد شمالی پروازوں کے خلاف خطے پر سختی سے عمل درآمد کرانا تھا۔ اس پوری دہائی میں یو ایس سینٹکام کے آپریشنز جیسے کہ وجیلینٹ وارئیر، وجیلینٹ سینٹینل، صحرائی حملہ، صحرائی بجلی اور صحرائی لومڑی I اورII Vigilant Warrior، Vigilant Sentinel، Desert Strike، Desert Thunder اور Desert Fox نے عراق کی جانب سے اس کے ہمسائیوں کو لاحق خطرات یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل، کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

1990 کے عشرے میں مشرقی افریقہ کی ریاست صومالیہ اور علاقائی دہشتگردی کے خطرات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ قبائلی تصادم کے نتیجے میں فاقوں سے ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کمانڈ نے 1992 میں مہم برائے فراہمی امداد شروع کی تا کہ صومالیہ اور شمالی مشرقی کینیا میں امداد پہنچائی جا سکے۔ یو ایس سینٹکام کی کاروائی اُمید کو بحال کیا جائے، اس کاروائی نے یو این ایس سی آر 794 اور ایک کثیرملکی یونیفائیڈ ٹاسک فورس Unified Task Force کی مدد کی تا کہ وہ صومالی عوام کی اس وقت تک حفاظت کرے جب تک اقوام متحدہ کی یونوسام UNOSOM II مئی 1993 میں نہیں پہنچ جاتی۔ دیہی علاقوں میں یونوسام UNOSOM II کی جزوی کامیابیوں کے علاوہ موغادیشو میں حالات بدتر ہوتے چلے گئے اور پر تشدد کارروائیوں کے چند بدترین سلسلوں کے تناظر میں صدر بل کلنٹن نے تمام امریکی فوجیوں کو صومالیہ سے نکال لیا۔ خلیج کی جنگ کے بعد پورے عشرے میں دہشتگردانہ کارروائیوں نے خطے میں یو ایس سینٹکام کی موجودگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 1996 میں خوبار ٹاورز پر حملے ہوئے جن میں 19 امریکی فضائی اہلکار نشانہ بنے اور جس کے نتیجے میں کمانڈ نے آپریشن صحرائی لومڑی لانچ کیا تا کہ امریکی تنصیبات زیادہ محفوظ مقامات پر منتقل کی جا سکیں، جیسے کہ پرنس سلطان فضائیہ اڈے پر غیر ضروری عمارات کو ختم کر کے امریکہ کے فارورڈ "فٹ پرنٹس" ختم کیے جا سکیں اور اضافی عملے کو واپس امریکہ بھیجا جا سکے۔ 1998 میں دہشتگردوں نے کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخوں پر حملے کیے جن میں 12 امریکیوں سمیت 250 افراد ہلاک ہوئے۔ اکتوبر 2000 میں امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول (USS Cole) پر حملے کو، جس میں 17 امریکی بحری فوج کے اہلکار ہلاک ہوئے، اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم سے جوڑا گیا۔

11 ستمبر2001 کو امریکی سرزمین پر دہشتگردانہ حملوں نے امریکی صدر جارج بش کو بین الاقوامی دہشتگردی کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے پر مجبور کر دیا۔ یو ایس سینٹکام نے افغانستان سے طالبان کی حکومت، جو القاعدہ کے دہشتگردوں کو پناہ دئیے ہوئے تھی، دہشتگردوں کے تربیتی کیمپ چلانے میں ملوث اور افغان عوام کے استحصال میں ملوث تھی کو ہٹانے کے لیے جلد ہی آپریشن کاروائی دیر پا آزادی شروع کر دی۔

9-11 کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کو یہ احساس بھی ہوا کہ صدام حسین بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیے جا رہا ہے جو قابلِ قبول نہیں تھیں۔ صدام کے مسلسل ٹال مٹول نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکہ کی قیادت میں عالمی برادری کو طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ آپریشن عراقی آزادی کا آغاز 19 مارچ 2003 میں ہوا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت اور عراق میں صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے بالترتیب 9 نومبر 2001 اور 8 اپریل 2003 کے بعد سے یو ایس سینٹکام ان ممالک میں نئے آزاد طریقے سے منتخب حکومتوں کی مدد کر رہی ہے، مزاحمت کاروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور متعلقہ ممالک کے سکیورٹی کے اداروں کی تربیت کر رہی ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت کے قابل ہو سکیں۔

اکتوبر 2002 میں یو ایس سینٹکام نے ہاون آف افریقہ (Horn of Africa) میں آپریشن کا آغاز کیا تا کہ یہ ممالک دہشتگردی کا مقابلہ کر سکیں، امن و امان کا قیام ممکن بنائیں اور خطے میں استحکام لائیں۔ ان آپریشنز نے انسانی بنیادوں پر مدد، انتظام نتائج اور متعدد شہری پروگراموں کا روپ دھار لیا۔

کمانڈ پورے خطے میں آفات کی صورت میں مدد کرنے کو بھی ہر دم تیار رہتی ہے۔ اس کی تازہ ترین امدادی مثالیں اکتوبر 2005 میں پاکستان میں آنے والے زلزلہ اور 2006 میں لبنان سے بڑے پیمانے پر امریکی شہریوں کے کرنا ہے۔

یکم اکتوبر 2008 کو وزارت دفاع نے سوڈان، اریٹریا، ایتھوپیا، جبوتی، کینیا اور صومالیہ کی ذمہ داری نئے تشکیل دئیے گئے ادارے افریقہ کی کمان کو سونپ دی۔ جبکہ مصر، جو وزارتِ دفاع کی باقاعددگی سے ہونے والی مشقوں روشن ستارہ (Bright Star) کا میزبان ہے، بدستور یو ایس سینٹکام کے کنٹرول میں رہے گا۔
 

Media Gallery

ویڈیو، بصری
تصویریں

جنگی کیمرہ -->

مرکزی کمان کی تصویریں -->

no press releases available at this time
No audio available at this time.
Content Bottom

@CentcomNews //Social Media//

حالیہ ٹویٹز
حالیہ فلکر پر تصویریں
120603-A-UG106-030

120603-A-UG106-030
viewed 487 times

فیس بُک پر دوست
22,348+