|
صدر زرداری کا دورہ واشنگٹن اور امریکی میڈیا
|
تابندہ نعیم
واشنگٹن ڈی سی
May 6, 2009
|
|
| Local residents board the bus as they flee the troubled Mingora town, 05 May 2009 | پاکستان کے ایٹمی اثاثے اور طالبان ان دنوں امریکی میڈیا کی شہ سرخیوں اور تھنک ٹینکس کا پسندیدہ موضوع گفتگو ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سربراہان واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہیں اور اوباما انتظامیہ سے انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں اپنے اپنے ملک کے کردار اور ضروریات کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاوس کاکہنا ہے کہ صدر اوباما پاکستان اور افغانستان کے سربراہوں سے الگ الگ اور مشترکہ ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں سے کس کو کیا حاصل ہوگا اس بارے میں قیاس آرائیاں امریکی اور پاکستانی اخبارات میں جاری ہیں۔ آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ صدر زرداری کے دورے کے موقعے پر یہاں حکومت اور میڈیا کاموڈ کیسا ہے۔
صدر زرداری کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب پاکستان کئی اطراف سے مکمل طور پر گھرا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ انتہا پسندوں اور حکومت کے درمیان ہونے والے امن معاہدوں اور فوجی کارروائی کی غیر واضح صورتحال کے درمیان جان بچا کر گھر چھوڑنے والوں کی تعدادمیں ہر روز ہوتا اضافہ مہاجرین کی ایک نئی نسل تیار کر رہا ہے اور فوج کی جانب سے تازہ کارروائیوں میں مارے جانے والے انتہا پسندوں کی تعداد بھی گنوائی جا رہی ہے مگر واشنگٹن کا اصرار ہے کہ اسلام آباد خطرے میں ہے۔
ایڈمرل مائیکل مولن کا کہنا ہے کہ طالبان کی مسلسل کامیابیاں نہ صرف خطے کے امن اور مفادات کے لئے براہ راست خطرہ ہیں بلکہ ہماری اپنی سلامتی کے لئے بھی خطرہ ہیں۔ یہ اب کیا کر سکتے ہیں کی بات نہیں ،کیا کیا جائے کا معاملہ بن چکا ہے۔
امریکی فوج کے سربراہ نے اگرچہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ پر اطمینان کا اظہار کر دیا ہے مگر امریکی اخبارات کی شہ سرخیوں سے ملنے والا تاثر اس کے برعکس ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے طالبان کی مدد کرنے والے ایک ایسے پاکستانی طالب کا انٹرویو شائع کیا ہے ،جس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے کامیاب رہے ہیں اور ان حملوں میں اس کے29ساتھی مارے جا چکے ہیں۔ مگر پاک افغان سرحد طالبان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے دورہ سعودی عرب اور سعودی حکومت سے پاکستان میں طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لئے اپنا اثر ر رسوخ استعمال کرنے کی درخواست بھی امریکی اخبارات کی شہ سرخیوں کا حصہ ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر ہال بروک کا کہنا ہے کہ ہم اس صورتحال میں اس لئے ملوث ہیں کہ اس کا ہماری قومی سلامتی کے مفادات سے براہ راست تعلق ہے۔ بہت سے لوگ پاک افغان خطے کی صورتحال کو ویت نام قرار دیتے ہیں۔ مگر میں ویت نام جنگ کے دوران امریکی حکومت کا حصہ رہا ہوں۔ اور آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ گو افغانستان اور ویت نام میں کئی چیزیں مشابہ ہیں مگر فرق یہ ہے ویت نام اور اسکی فوج امریکہ کے لئے کبھی براہ راست خطرہ نہیں بنی تھی مگر طالبان ہمارے لئے براہ راست خطرہ ہیں ،انہوں نے گیارہ ستمبر ، ممبئی دہشت گردی ، بے نظیر بھٹو کا قتل کیا۔ اور کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسے اور کام کریں گے۔
امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہولبروک نے کانگریس کی فارن افیئرز کمیٹی کو بتایا ہے کہ لوگ افغانستان کی صورتحال کو ویت نام سے مشابہہ قرار دیتے ہیں مگر ویت نام میں کوئی براہ راست امریکہ کا دشمن نہیں تھا جیسا کہ پاک افغان خطے میں ہے۔
رچرڈ ہولبروک کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے کئی وزرا آج پہلی بار واشنگٹن میں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے کیونکہ پاک افغان تعاون امریکہ کی اپنی سلامتی کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ امریکہ میں کئی مہینوں سے پاکستان کو اپنے دشمنوں سے متعلق روایتی سوچ تبدیل کرنے کے مشورے بھی دیے جا رہے ہیں۔ اور صدر اوبامانے گزشتہ ہفتے خیال ظاہر کیا تھا کہ پاکستان کو اپنے اصل دشمن کی پہچان بھی ہو رہی ہے۔
صدر اوباما نے کہا تھا کہ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد میں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ بھارت کو بڑا خطرہ سمجھنے کی سوچ غلط فہمی پر مبنی تھی اور انہیں اصل خطرہ اندرونی طور پر ہے۔
رچرڈ ہولبروک کانگریس کی فارن افیئرز کمیٹی کے سامنے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکی حکومت کا صدر زرداری کو واشنگٹن مدعو کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ پاکستان کی جمہوری حکومت کو اپنے چیلنجز سے نمٹنے میں پوری طرح مدد دینے کو تیار ہے مگر امریکی امداد کا کھلا چیک نہ دیے جانے کے بارے میں پاکستان میں جن غلط اندازوں کا اظہار کیا جا رہا ہے ان کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پاک افغان سربراہوں کے موجودہ دورے میں زیادہ توجہ پاکستان پر مرکوزرہے گی کیونکہ اوباما انتظامیہ جان چکی ہے کہ افغانستان میں انتہا پسندوں کے خلاف کامیابی کے لئے پاکستان کا استحکام اور سلامتی اولین شرط ہے۔
|
|
|