سائنس دانوں کےایک گروپ نے کہا ہے کہ افریقی جینز پر اب تک کی جانے والی سب سے بڑی تحقیق سے انسان کی ابتدا کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
دو بڑے مطالعاتی جائزوں کو ملاکر کیے جانے والے اس جینیاتی مطالعے سے ان نظریات کی تصدیق ہوئی ہے کہ جدید دور کے انسان کی ابتدا افریقہ سے ہوئی تھی اور وہ پیسفک اور جنوبی اور شمالی امریکہ میں یورپ اور ایشیا سے نقل مکانی کرکے پہنچا تھا۔اس مطالعاتی جائزے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ افریقی باشندوں کا ڈی این اے سب سے زیادہ متنوع ہے اور اس میں ممکنہ نقصان دہ جینیاتی تبدیلی بہت کم ہوئی ہے۔
امریکی جریدے سائنس میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں محققین نے افریقہ کی 121 آبادیوں کے ساتھ ساتھ افریقی امریکیوں کی چار اور60 غیر افریقی آبادیوں کے جینیاتی نمونوں کا مطالعہ کیا۔اس تحقیق کا مقصد افریقی باشندوں کو آبادی کی تاریخ پڑھانا اور اس بارے میں تحقیق میں مدد دینا تھا کہ بیماریاں مخصوص نسلوں پر حملہ آور کیوں ہوتی ہیں۔
محققین کو معلوم ہوا کہ انسانوں کی ایک آبادی افریقی براعظم سے نقل مکانی کے بعد کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر سکڑ گئی۔ بعد میں اس آبادی کی افزائش ہوئی اور باقی نسلی گروہوں کی تشکیل اسی چھوٹے گروہ سے ہوئی۔ جب کہ افریقہ میں باقی رہ جانے والی آبادیوں میں جینیاتی تنوع برقرار رہا۔
یونیورسٹی آف پینسلوانیا کی ایک جینیاتی ماہر سارا تشکاف کہتی ہیں کہ ان نتائج سے افریقہ میں جینیاتی تنوع کے درجوں اور نمونوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس مخصوص آبادی میں دنیا بھر کی نسلوں کے ملے جلے لوگ تھے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان میں یورپی نسل کے لوگوں کا تناسب بھی مساوی تھا۔ اس نسلی گروہ میں مشرقی ایشیا اور جنوبی ہندوستان کے لوگ بھی کچھ تعداد میں موجود تھے۔
ان محققین کے مطابق جنہوں نے قدیم آبادیوں کے 14 گروہوں کی نشان دہی کی، جن کا کسی زمانے میں ایک ہی تمدن اور ایک ہی زبان ہوا کرتی تھی، براعظم کے اندر بھی بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی ہوئی۔
افریقی تنوع سے متعلق اس جائزے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی معلومات سے بائیو میڈیسن کے شعبے میں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
اس مطالعاتی جائزے کے شریک مصنف اور ٹینسی میں وینڈربلٹ یونیورسٹی کے بائیو فزیالوجی کے پروفیسر سکاٹ ولیمز کہتے ہیں کہ محققین افریقہ کی کچھ آبادیوں کی بیماریوں کا پتا چلا کر ان کے علاج کے طریقے تلاش کرنے کے نقطہٴ نظر سے ان کی وجوہات کو سمجھنے میں ماہرین کی مدد کرسکیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی مثال یہ ہے کہ مغربی افریقی نژاد افراد میں ہائی بلڈ پریشر اور پراسٹیٹ کینسر کی بیماریاں عام ہیں اور اس حوالے سے مغربی افریقہ میں کچھ تحقیقات جاری ہیں۔
تشوف کا کہنا ہے کہ اس مطالعاتی جائزے کا مقصد افریقہ کی آبادی کی تاریخ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرکے اور مستقبل میں جینیاتی مطالعوں کے لیے فضا ہموار کرکے افریقی باشندوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ان مطالعاتی جائزوں میں بیماری اور دوا کے اثر کے لیے جینیاتی اور ماحولیاتی خطروں پر تحقیق شامل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ جینیاتی شعبے میں آنے والے انقلاب سے افریقی آبادیوں کو فائدہ نہ پہنچے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ اس مطالعاتی جائزے سے افریقہ میں مزید تحقیقی کاموں کو تحریک ملے گی۔
اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افریقی نژاد لوگوں میں جینیاتی تنوع سب سے زیادہ ہوتا ہے جس کے بعد مشرق وسطیٰ اور پھر ایشیائی اوریورپی باشندوں کا نمبر آتا ہے۔قدیم امریکی باشندوں کے ڈی این اے آپس میں سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔