24 اپریل سے یعنی جب میکسیکو میں سوائن فلو کا سلسلہ شروع ہوا، اینجل فلوریس نے رات سوادس بجے تک مریض بھگتائے اور آخر کار تھک ہار کر گھر جانے لگا تو ابھی مریضوں کی قطار گلی تک پھیلی ہوئی تھی۔
یہ ڈاکٹر کسی ہسپتال یا کلنک یا کسی سرکاری عارضی کیمپ میں نہیں بلکہ غربا کے محلے میں ایک ڈرگ سٹور پر رات کی ڈیوٹی دے رہا تھا۔ دکان پر بورڈ لگا تھا: تمام دوائیں وہی مگر سستی۔
مسٹر فلوریس کا کہنا ہے کہ جب ہما رے لوگ بیمار ہوتے ہیں تو انہیں ہسپتال جانے کا عادت نہیں ہے۔ ہم تو فارمیسی یعنی کیمسٹ کی دکان پر جا کر دوا خرید لاتے ہیں، یا پھر بیمار ہی پڑے رہتے ہیں اور خود بخود صحت کے بحال ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میکسیکو میں اتنی اموات ہو رہی ہیں کیونکہ ہم اس وقت تک ہسپتال نہیں جاتے جب تک تکلیف بے حد نہ بڑھ جائے اور پانی سر سے نہ گذر جائے۔
اگر چہ میکسیکو کی سطحِ سمندر سے7300 فٹ بلندی سانس کی تکالیف کو جنم دیتی ہے۔ اس لئے اکثر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ بیمار کو سانس کی تکلیف ہے یا انفلوئنزا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ یہاں کے ماہرین کے بقول فلو کے شکار لوگ ہسپتال جانے میں بہت دیر کر دیتے ہیں۔ اور جب پہنچتے ہیں تو حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ ان کا علاج نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ کیمسٹوں کے پاس بہت سے دوائیں سستے داموں مل جاتی ہیں، اس کے باوجود سوائن فلو کی دوائیں ازحد مہنگی ہیں۔ میکسیکو کے غریب اور حتیٰ کہ کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے لوگ بھی خود ہی دوا خرید کر کھانے کے عادی ہیں۔ وہ پہلے تین چار دن انہی چکروں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
پیر کے روز عہدیداروں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ آبادی کا ہے۔ چونکہ یہ بیماری ایک سے دوسرے کو لگتی ہے اس لئے آبادی جتنی زیادہ ہوگی مرض اتنا ہی زیادہ پھیلے گا۔
وبا پھوٹنے کے بعد حکومت نے ایک سو عارضی کلنک قائم کئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ مسائل کیوں ہیں؟
کیمسٹ کہتے ہیں کہ مفت سرکاری ہسپتال کے باہر قطار میں سارا دن کھڑے رہنے کے باوجود بعض اوقات معلوم ہوتا ہے دوا نہیں مل سکتی کیونکہ سٹاک ختم ہو گیا ہے۔ سوائن فلو کی دوا ایک سو ڈالر میں آتی ہے جسے بیشتر لوگ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ یہاں آتے ہیں۔ پھر کچھ لوگ اس لئے ہسپتال جانا نہیں چاہتے کہ وہاں بھانت بھانت کے جراثیم ہونگے۔
محققین کا کہنا ہے کہ میکسیکو اپنی من مرضی ڈاکٹری کا ملک ہے۔ آپ کیمسٹ کے پاس جائیں اور جتنی دوائیں چاہیں اپنے لئے بھی اور رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لئے بھی لے سکتے ہیں۔
برکلے یونیورسٹی کے اقتصادیات کے پروفیسر پال گرٹلر جو میکسیکو میں کام کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ
ہسپتال تک پہنچنا یا علاج کرانے کی خواہش کا اس سب المیے میں اتنا دخل نہیں ہے جتنا خود غربت کا ہے۔
ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال جانے یا گھر میں آرام کرنے کا مطلب ہے کام سے ایک دن کی چھٹی لینا۔
انہیں اس پر مجبور کرنے کا مطلب ان کے منہ سے نوالا چھیننا ہے۔
(واشنگٹن پوسٹ سے ماخوذ)