وائٹ ہاؤس میں صدر براک اوباما کے سودِن مکمل ہونے کے بعد عالمی منظر نامے کے موضوع پر واشنگٹن ڈی سی میں ایک مجلسِ مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جو دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اِس بحث میں دنیا بھر کے ملکوں سے بہت سے افراد نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات پیش کیے اور واشنگٹن میں موجود ماہرین سے سوالات بھی کیے۔
اِس مباحثے کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں مسلم دنیا کے حوالے سے بات ہوئی جب کہ دوسرا حصہ خارجہ پالیسی میں درپیش چیلنجوں کے بارے میں تھا، تیسرا حصہ عالمی اقتصادی بحران اور چوتھا حصہ اوراوباما کے دور میں متوقع تبدیلیوں پر مشتمل تھا۔
مسلم دنیا کے حوالے سے ماہرین نے اِس جانب توجہ دلائی کہ صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ تعلقات کی بنیاد دو طرفہ باہمی احترام پر ہے اور وہی اُن کا نقطہٴ نظر ہے۔
ایران کے حوالے سے اوباما کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا کہ وہ موجودہ صورتِ حال سے مطمئن نہیں لیکن مستقبل کے بارے میں پُر امید ہیں۔ اِس خیال کا بھی اظہار کیا گیا کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات آئندہ کیا رُخ اختیار کریں گے اِس کا انحصار بڑی حد تک ایران میں آئندہ انتخابات پر ہوگا۔ ایک بات جس کی جانب ایک تجزیہ نگار نے توجہ دلائی کہ اُن کے مطابق ایران میں نئی نسل امریکہ کی جانب اچھے خیالات رکھتے ہیں جب کہ مسئلہ ٴ ایران حکومت کے ساتھ ہے۔
پاکستان سے سوال کرنے والے ایک نامہ نگار نے کہا کہ پاکستان کے اندر ڈرون حملوں سے اخلاقی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور چاہے کتنے بھی ڈرون بھیجے جائیں اس سے آپ نظریے کو ختم نہیں کر سکتے۔ اُس نے اِس جانب بھی توجہ دلائی کہ القاعدہ اور طالبان میں فرق کا ایک معیار ہونا چاہیئے۔ نامہ نگار نے لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
پروگرام میں شامل ہوتے ہوئے کابل سے ایک کالر نے کہا کہ افغانستان عراق نہیں ہے اور امریکہ کو طالبان سے معاملہ کرتے ہوئے محتاط ہونا ہوگا۔
اِس موقعے پر ایک تجزیہ کار نے کہا کہ افغانستان کے لیے دو طرفہ حکمتِ عملی ضروری ہے یعنی ایک جانب امن و امان کی بحالی کے لیے فوجی طاقت کا استعمال اور پھر اقتصادی ترقی کی شروعات ۔پاکستانیوں میں نیوکلیر ہتھیاروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک تجزیہ کار نے اس خیال کا اظہار کیا کہ امریکہ کے لیے یہ ایک مخمصہ ہے اور پاکستانی فوج کو طالبان کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے بارے میں بھی سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں، إس لیے کہ عالمی سیکیورٹی کے لیے یہ بہت اہم ہے۔
علاقائی صورتِ حال کے پسِ منظر میں بھارت کا بھی ذکر آیا اور اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ بھارت علاقے کے معاملات میں اہمیت رکھتا ہے اور امریکہ اسے قلیل المیعاد یا طویل المیعاد مقاصد کے لحاظ سے نظر انداز نہیں کر سکتا۔
مذاکرات میں صدر اوباما کی اس پیشکش پر بھی بحث کی گئی جو اُنھوں نے مذاکرات کے سلسلے میں مختلف ملکوں کو دی ہے۔
اِس سلسلے میں خاص طور پر ایران کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اس پیش کش کے مثبت اثرات ظاہر ہورہے ہیں، مثال کے طور پر حماس بھی امریکہ سے مکالمے کا متمنی ہے۔
عمومی طور پر ماہرین کا خیال تھا کہ صدر اوباما نے ملکوں کے ساتھ جن میں دوست اور حریف ممالک دونوں شامل ہیں رابطے کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اوریہ کہ طرزِ عمل اقوامِ متحدہ کے اندر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
مجلسِ مذاکرہ میں عالمی اقتصادی بحران کے پسِ منظر میں بین الاقوامی تعاون پر زور دیا گیا اور اِس جانب توجہ مبذول کرائی گئی کہ صدر اوباما اپنی بہترین کوششوں کے باوجود تنہا اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے، اس لیے عالمی تعاون ضرور ہے۔
ماہرین نے یہ بھی کہا کہ اوباما نے ایک نیا اعتماد دیا ہے اور امریکی معاشرے میں گویا تبدیلی کے ایک پیام بر ہیں۔ وہ معاشرے کے تمام طبقوں سے چاہے وہ امریکہ میں ہوں یا اس سے باہر رابطہ کر رہے ہیں اور وہ دوستوں کے ساتھ ساتھ حریفوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
مجلسِ مذاکرہ میں ماحولیات میں تبدیلی کے حوالے سے اقدامات اور انسانی حقوق کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا۔