|
|
پنجاب کا محکمہ آثار قدیمہ ایک منصوبے کے ذریعے لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں واقع انار کلی کے مقبرے کو اس کی اصلی شکل میں بحال کرنے اور اس کی حدود کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کر کے ایک تاریخی عمارت کے طور پر عام لوگوں کے لیے کھولنا چاہتا ہے۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور مقبرے کے عقب میں واقع 24سرکاری کوارٹرز ملازمین سے خالی کروا کے منہدم کر دیے گئے ہیں۔ مقبرے کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کرنے کے لیے عقب میں اس کا اپنا ایک دروازہ تعمیر کیا جائے گا جس کے بعد سول سیکرٹریٹ کے اندر اس کے گرد دیوار بنا کے اس کو ایک علیحدہ تاریخی عمارت میں تبدیل کیا جائے گا۔ محکمہ آثار قدیمہ کے عہدے دار سلیم الحق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدیوں سے رنگ وروغن کی مختلف تہیں جو اس مقبرے پر جماد ی گئی ہیں ان کو بھی سائنسی انداز میں ہٹایا جائے گا تاکہ اس عمارت کی اصل شکل و صورت سامنے آئے اور پھر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی وہی شکل بحال کرنے کی کوشش کی جائے جو تعمیر کے وقت تھی۔ انھوں نے بتایا کہ سکھوں کے دور حکومت میں اس مقبرے کو کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا اور مقبرے چونکہ چاروں طرف سے کھلے ہوتے ہیں لہذا رہائش گا ہ میں تبدیل کرتے وقت اس کی باہر کی طرف واقع محرابوں کو دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ سلیم الحق نے بتایا کہ مقبرے کی یہ تجاوزات بھی ایک طرح سے سکھ دور کے طرز تعمیر کی نمائندہ ہیں لہذا یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جن تجاوزات کو ہٹانا ضروری نہیں ہے ان کو سکھ دور کی علامت کے طور پر قائم رکھا جائے اور باقی تجاوزات کو ختم کر کے مقبرے کو اصلی شکل میں بحال کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد یہ عمارت گرجا گھر میں تبدیل کر دی گئی تھی اورانگریزوں ہی نے 1891ء میں اس کو پنجاب ریکارڈ آفس بنا یا تھا اور آج تک یہ ریکارڈ روم ہی کہلاتا ہے مگر یہاں سنگ مرمر کی قبر کا ایک نشان Cinetaph ہمیشہ موجود رہا ہے جس کی وجہ سے اس کوانار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے۔
|
|
واضح رہے کہ تاریخی طور پر اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ قبر انارکلی نام کی کسی خاتون کی ہے ۔ قبر کے پتھر پر بھی کچھ اشعار اور سن وفات 1599ء درج ہے مگر کوئی نام درج نہیں ہے۔سلیم الحق نے بتایا کہ اوّل اوّل یہ کہانی انگریز موٴرخین نے تحریر کی اور ان کے بقول ولیم فنچ (William Finch)نامی ایک موٴرخ نے لکھا ہے کہ شاہی قلعہ لاہور کے شیش محل میں ایک کنیز کو اکبر نے دیکھا کہ سلیم کے ساتھ اشارے بازی کر رہی ہے تو بادشاہ نے کنیز کو دیوار میں چنوا دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کو دیگر محققین تسلیم نہیں کر رہے تھے کیونکہ اکبر کے دور میں شیش محل تعمیر نہیں ہو ا تھا بلکہ اس کو شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا لیکن بعد ازاں ایک اور انگریز موٴرخ نے 1935ء میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک رسالے میں مضمون لکھا جس میں واضح کیا کہ جن آئینوں سے اکبر نے سلیم اور ایک کنیز کو دیکھا تھا وہ دو فٹ چوڑے اور تین فٹ لمبے آئینوں کی ایک قطار تھی جو اس دور میں قلعہ لاہور کے رہائشی حصے میں نصب تھی۔ خیال رہے کہ انار کلی کی کہانی کو شہرت دوام 1923ء میں لکھے گئے امتیاز علی تاج کے ایک ڈرامے سے حاصل ہوئی تھی اور انھوں نے بھی اس ڈرامے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ان کی اس کہانی کے پس منظر میں محض وہی تاریخی حقیقت ہے جس کا ولیم فنچ نے ذکر کیا ہے باقی سب محض کہانی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر یہ انارکلی کی قبر نہیں تو پھر یہ کس کی قبر ہے جو جہانگیرکے ابتدائی دور حکومت میں تعمیر ہوئی ۔ سلیم الحق کا کہنا تھا کہ دارالشکوہ نے اپنی ایک کتاب میں اس مقام کا حوالہ انارکلی باغ کے طور پر دیا ہے اور ان کے بقول ممکن ہے اس باغ کے حوالے سے اس مزار کا نام مقبرہ انار کلی ہو گیا تھا۔
قبر پر جو مجنوں سلیم اکبر کا نام کندہ ہے اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سلیم الحق نے بتایا کہ قبر پر سن وفات 1599ء کندہ ہے اور اس دور میں جہانگیر کا نا م نورالدین سلیم لکھا جاتا تھا جب کہ بعد ازاں وہ بادشاہ بنا تو اس کا نام نورالدین جہانگیر ہو گیا تھا لہذا مجنوں سلیم اکبر کے نام پر ان کے بقول مزید تحقیق ہونی چاہیے۔
|
عبدالرحمن چغتائی کی بنائی ہوئی انارکلی کی تخیلاتی تصویر |
خیال رہے بعض تاریخ دانوں نے یہ موٴقف اختیار کیا ہے کہ یہ مقبرہ جہانگیر کی ایک بیوی صاحب جمال کا تھا جو جہانگیر کی عدم موجود گی میں لاہور میں وفات پاگئیں اور یہیں دفن ہو گئیں۔ اس حوالے سے سلیم الحق کا کہنا تھا کہ مغل بادشاہ اپنی بیگمات کے مقبروں پر لازمی طور ان کے نام کندہ کرواتے تھے مگر یہاں کوئی نام کندہ نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس تاریخی حقیقت کے باوجود کہ 1599ء میں جو کہ اس صاحب مزار کا سن وفات ہے اکبر اور ان کا بیٹا سلیم دونوں لاہور سے باہر تھے ، عام لوگ اس کو انار کلی کا مقبرہ ہی کہتے ہیں اور مستقبل میں اس پر کتنی بھی مزید تحقیق ہو جائے ڈراموں اور فلموں نے انار کلی کے کردار کو ان کے بقول جس طرح امر کر دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مقبرہ اس کردار کے نام ہی موسوم رہے گا۔