|
سوائن فلو ویکسین بنانے میں مہینے لگ سکتے ہیں
|
May 1, 2009
|
|
| میکسیکو شہر میں راہبائیں حفاظتی ماسک پہنے ہوئے
| عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا کی متعدد لیبارٹریاں سوائن فلو H1N1 کے خلاف ویکسین تیار کرنے کے کام میں مصروف ہیں۔
ادارے نے اپنی چوکسی کی سطح کو بڑھا کر پانچ کر دیا ہے، جو کہ مرض کی عالم گیر وبا کی سطح سے صرف ایک درجہ ہے۔
امریکی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ویکسین تیار ہونے کے عمل میں مہینے لگ سکتے ہیں۔ جوں جوں جوں سوائن فلو کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، توں توں اس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کی کوششوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔
یونی ورسٹی آف میری لینڈ کے ڈاکٹر وِلبر چین نے برڈ فلو کے خلاف ویکسین کی تلاش کے لیے تجربے کیے تھے۔ وہ اُن سائنس دانوں میں شامل ہیں جو جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والے فلو وائرس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ویکسین پر تحقیق کرنے والوں کی یہ کوشش ہے کہ ساری میسر ٹیکنالوجی کو چھان ماریں تاکہ ویکسین کی جلد سے جلد تیاری کے کام میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ ویکسین کی تلاش میں تین مہینے لگ سکتے ہیں، یا شاید اِس سے بھی زیادہ عرصہ درکار ہو، کیوں کہ یہ ایک بے حد پیچیدہ عمل ہے۔
بیماریوں کے کنٹرول سےمتعلق امریکی مرکز سی ڈی سی نے پہلے ہی وائرس کا ایک سیمپل تیار کرلیا ہے ،جسے (سیڈ سٹاک) بیج کی آبیاری کا انتظام کہا جا سکتا ہے۔ یہ سیڈ سٹاک وائرس کی نسل کے ایک نمونے کی مثل ہے، جسے ویکسین تیار کرنے کی طرف گامزن ہونے کا پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔
مرکزکا کہنا ہے کہ اُس کے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو فلو پر تحقیق کے خواہشمند رہتے ہیں۔
ویکسین تیار کرنے والی ایک کمپنی کا نام ‘میڈی میون ’ ہے۔ اِس ادارے کے سربراہ سائنس داں کا نام ایڈ موکارسکی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی تیار ہونے والی ویکسین کو پہلے جانوروں میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے تاکہ یہ اطمینان کیا جا سکے کہ انسانوں کے لیے مفید ثابت ہو گی اور اس کے مضر اثرات نہیں ہوں گے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سنہ 1976ء میں امریکہ میں اسی قسم کا سوائن فلو پھیلا تھا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں کو ویکسین لگانے کا پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ یہ سوائن فلو بڑی وبا تو نہیں بنا، تاہم تقریباً 30لوگ دماغی پیچیدگی کا شکار ہوئے، جِس کا باعث ویکسین بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر رابرٹ بیلشے سینٹ لوئی یونی ورسٹی کے سکول آف میڈیسین میں ویکسین تیار کرنے کے یونٹ سے وابستہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ویکسین تیار کرنے اور طبی تجربات میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ کیا ہم موسمِ خزاں تک اِس میں کامیاب ہوں گے؟ وہ کہتے ہیں کہ اُنھیں یقین ہے کہ ویکسین تیار کرنے والے اِس کام میں مصروف ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب ابھی واضح نہیں کہ اگلے چند مہینوں میں کتنی ویکسین تیار ہو سکے گی۔
موکارسکی کا کہنا ہے کہ فلو کے ویکسین تیار کرنے والی کمپنیاں ضرورت کو پورا کرنے کے لیے خود ہی آگے بڑھیں گی۔
عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کئی ایک لیبارٹریاں ویکسین تیار کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سوائن فلو آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا، لیکن اس کے بعد سال کے اواخر میں پھر نمودار ہوگا۔ اِس لیے سائنس دانوں کو اِس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ کیا یہ واقعی اتنا بڑا خطرہ ہے کہ خزاں کے موسم تک فلو کی عام ویکسین میں نئے وائرس کا علاج بھی موجود ہو۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اِس بات کا تعین یقینی نہیں کیونکہ فلو ایک بے اعتبار مرض ہے، جِس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
عالمی ادارہٴ صحت نے سب ممالک کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس وبا سے نمٹنے کا منصوبہ تیار رکھیں۔
|
|
|