موبائل فون جو پاکستانی معاشرے میں ایک دہائی قبل تک سماجی مرتبے کی علامت سمجھا جاتا تھا آج ہر خاص و عام کی دسترس میں ہے۔ فوری رابطے کی اس جدید سہولت نے فاصلوں کو تو ختم کر دیا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ٹیلی مواصلات کے شعبے میں جس تیزی سے ترقی ہوئی ہے وہاں صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کمپنیوں کے درمیان مسابقت کے نتیجے میں ضرورت سے زیادہ مارکیٹنگ کا رجحان اب عام ہوتا جا رہا ہے جو معاشرتی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کہیں بھی ہوں ان کے پاس اپنی فیملی سے رابطے اور بروقت فیصلہ کرنے کے لیے موبائل فون موثر ذریعہ ہے ۔ لیکن اس کے غیر ضروری استعمال نے سماجی قدروں کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے ۔ والدین کے نزدیک اس ٹیکنالوجی کی اچھائی یہ ہے کہ اگر ان کے بچوں کو انسٹی ٹیوٹ سے گھر واپس پہنچنے میں دیر ہو جائے تو وہ با آسانی ان سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ مگر دوسری جانب اس کے غلط استعمال کی جو وباء معاشرے میں پھیل گئی ہے وہ نقصان دہ ہے ۔
لوگوں کی یہ شکایات بھی بڑھتی جا رہی ہیں کہ وہ میٹنگ میں ہوں یا فیملی کے ساتھ ، ڈرائیونگ کے دوران یا نیند کے اوقات میں ایک فون کال ان کے معاملات کو متاثر کر دیتی ہے تو دوسری جانب ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال ممنوع ہونے کے باوجود خواندہ اور نا خواندہ دونوں میں یہ رجحان عام ہے ۔جس سے ڈرائیور حضرات نہ صرف اپنی زندگی کو خطرے سے دوچار کرتے ہیں بلکہ دوسرے کئی لوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں ۔
اشفاق زیدی مقامی بینک میں منیجر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ”لوگ اس بات کا احساس کیے بغیر کہ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر بات کرنا کس حد تک خطرناک ہے ، وہ ہینڈز فری استعمال نہیں کرتے ۔ آپ کتنا ہی ہورن بجا لیں یا لائٹ دیں وہ اپنی بیس کلومیٹر کی رفتار پر گاڑی چلاتے رہیں گے مگر آپ کو راستہ نہیں دیں گے ۔ یہاں تک کہ موبائل پر بات کرتے ہوئے وہ بغیر دیکھے اپنا ٹریک بھی تبدیل کر لیتے ہیں ۔“
موبائل فون کا غیر ضروری استعمال اب ہر عمر کے لوگ بالخصوص نوجوانوں کے لیے ضروری بنتا جا رہا ہے ۔ وہ دوستوں کی محفل میں ہوں ، فیملی کے ساتھ ڈنر یا پھر بزرگوں کے درمیان ۔۔۔ ہر لمحے کسی نہ کسی دوست سے بات چیت یا پھر ایس ایم ایس پر مصروف رہنا اب انہیں ایک عام سی بات لگتی ہے ۔ مگر بظاہر یہ عام سی بات اخلاقی قدروں کو خطر ناک حد تک نقصان پہنچا رہی ہے ۔ جو ایک طرف بزرگوں یا اپنے سے بڑوں کا احترام ختم کر رہی ہے تو دوسری طرف مقابل کو اس بات کا احساس دلا رہی ہے کہ آپ اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ ناقدین کے نزدیک موبائل فون کے غلط استعمال کی ایک اہم وجہ کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے آئے دن نت نئے پیکجوں کا متعارف کرانا بھی ہے جس کی وجہ سے غیر ضروری ٹیکسٹ میسجز کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے ۔ اس سے افواہوں کی گردش ، فراڈ اور تخریب کاری بھی آسان ہو گئی ہے ۔ اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ موبائل فون صارفین کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جن میں اکثریت اپنا زیادہ تر وقت موبائل پر صرف کرتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنا اب والدین کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ۔ اشفاق زیدی کا کہنا ہے کہ” ہم کچھ حد تک تو اپنے بچوں کی فنڈنگ یا ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں مگر بہت سی جگہ پر ہم بے بس ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے بچے سونے چلے گئے لیکن آپ نہیں جانتے کہ وہ صبح چار بچے تک فون پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنے میں کامیاب رہا ہے ۔“
دوسری جانب خود نوجوان نسل بھی یہ مانتی ہے کہ موبائل فون کا وقت بے وقت استعمال اب ان کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے ۔کراچی میں تابانی انسٹی ٹیوٹ میں اے سی سی اے کرنے والے نوجوانوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جانتے ہوئے کہ اس کے غلط استعمال سے ان کی تعلیم، وقت اور پیسوں کا ضیاع ہو رہا ہے وہ خود کو اس سے روک نہیں پاتے اور اس کی ایک اہم وجہ موبائل فون کمپنیوں کے پرکشش اور سستے پیکجز ہیں خصوصاً رات کے پیکج جس میں کال کے ریٹس کم ہونے کی وجہ سے وہ اس جانب مائل ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے اکثر اوقات حادثات بھی منظرِعام پرآتے ہیں لیکن ٹر یفک حکام کی جانب سے بار بار کے انتباہ کے باوجود لوگ اس پر عمل داآمد نہیں کرتے۔موبائل فون وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اورناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے صحیح استعمال کو فروغ دے کر ہی ہم اس کے مضر اثرات سے بچ سکتے ہیں۔