بہت جانا پہچانا محاورہ ہے۔ ہے نا؟ جیسا کہ اس کے استعمال
سے ظاہر ہوتا ہے اس کا مطلب ہے اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر جائز ، ناجائز حربہ
استعمال کرنا۔ہُک تو کھونٹی کو کہا جاتا ہے اور کروک کسی ٹیڑھی شے کو یا پھر
بددیانت شخض کو بھی کہتے ہیں تو پھر کیا یہ سمجھا جائے کہ اس لفظ کے باعث اس
محاورے کا بے ایمانی یا نا انصافی سے تعلق ہے؟
سب سے پہلے تو
یہ سمجھ لیں کہ ہُک کا مطلب ہے بِل ہُک یعنی ایسا اوزار جو درانتی سے ملتا جلتا ہے
مگر درانتی کا دندانوں والا حصہ لمبا ہوتا ہے جبکہ بل ہک کا دستہ لمبا اور بلیڈ
ہوتا ہے کند اورچھوٹا، اور پھروہ ہک کی شکل میں ٹیڑھا بھی ہوتا ہے اور اسے جھاڑیوں
وغیرہ کی صفائی کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔ کند ہونے کے باعث وہ لکڑیاں وغیرہ
کاٹنے کے کام نہیں آسکتا۔اور کروُک وہ لاٹھی ہے جو انگریزی کے حرف J سے
ملتی جلتی ہے اور اسے گڈرئیے اپنے ریوڑ کو ہانکنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
البرٹ
جیک نے لفظوں کی اصل سے متعلق اپنی کتاب میں ا س محاورے کی بڑی دلچسپ تاریخ درج کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جاگیرداری نظام کے تحت قرون ِ وسطیٰ میں انگلستان میں ایک قانون
منظور ہوا جسکے مطابق جلانے کی لکڑی حاصل کرنے کے لئے درخت یا انکی شاخیں کاٹنا
ممنوع قرار دیا گیا۔تاہم قانون میں علاقے کے غریبوں کے لئے یہ رعایت
رکھی گئی تھی کہ وہ زمیں پر گری پڑی سوکھی شاخیں اٹھا سکتے ہیں اگر وہ اپنے ہک یا
کروک کے ذریعے ان کو اکھٹا کر سکیں۔ تو یہ تھی اس محاورے کی بنیاد۔ بعد میں یہ ہر
جائز ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کرنے کے مفہوم میں برتا جانے لگا۔