سوال: بلال خان رند نے کہروڑ پکا ضلع لودھراں سے پوچھا ہے کہ انگریزی لفظ کال اور عربی لفظ قال
میں جو مماثلت ہے کیا اس کے باعث یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کی اصل ایک ہے؟
جواب: انگریزی
ہندیورپی زبان ہے اور عربی افرو ایشائی۔ یعنی دونوں بہت ہی الگ تھلگ
ہیں۔انگریزی لفظ کال کی تاریخ یہ ہے کہ یہ قدیم پروٹو انڈو یورپین میں گال تھا۔اس
سے مراد تھی پکارنا چیخنا، چلانا، وہاں سے یہ جرمن نژاد زبانوں میں آکر کالون بنا
جس کا مطلب تھا اونچی آواز میں بولنا۔ وہاں سے یہ پرانی نورس میں آیا اور کالا یعنی کے اے ایل ایل اے بن گیا،جہاں سے یہ مڈل
انگلش میں پہنچا (آپ جانتے ہوں گے کہ اس
سے مراد بارہویں سے پندرھویں صدی کی انگریزی ہے) تو مڈل انگلش میں کے
کی جگہ سی نے لے لی اور لفظ بنا کیلات۔
کسی سے ملنے کے
لئے جانے کو کال کہنے کا رواج مڈل انگریزی سے آیا ہے جہاں اسکا مطلب تھا دروازے پر
کھڑے ہوکر آواز دینا اور مراد تھی مختصر سی ملاقات کے لئے جانا۔لہٰذا آجکل جہاں ہم
وزِٹر کا لفظ بولتے ہیں اسے اٹھارہویں
صدی میں کالر کہا جاتا۔
ٹیلیفوں کی کال کے لیے اس لفظ کا استعمال انیسویں صدی کے
اواخر میں شروع ہوا۔ لفظ کال کے نئے پرانےبہت سے مطالب ہیں: ان میں بلانے، پکارنے،
حکم دینے، دعوت دینے، فون کرنے، حاضری لینے، اپیل کرنے، شیڈول کرنے، یاد کرنے،
توجہ دلانے، نام رکھنے، کسی سے وعدہ پوراکرنے کا مطالبہ کرنے اور صحیح پیشین گوئی
کے مفاہیم شامل ہیں۔
دوسری طرف عربی لفظ قال کا اس سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔قال کا مطلب محض کہنا ہے۔قالَ کا مطلب
ہے اس آدمی نے کہا۔یہ ماضی کا صیغہ ہے اور مذکر واحد غائب کے لئے بولا جاتا
ہے۔انگلش کال والے مفاہیم میں عربی کے جو متبادلات ہیں وہ بھی سن لیجئے، مختصراً
پکارنے، چلانے وغیرہ کے مفہوم میں اسِتِدعا، اسِتجلاب، دُعا، دعوت، ندا، منادی ،
مکالمہ اور ہاتِفیّہ ۔جبکہ کسی دعوے کے لئے یا گذارش یا اپیل وغیرہ کے لئے شاٴن، مطالب، سُوال، اور مختصر ملاقات کے لئے زیارت، عیادت اور
غشیان شامل ہیں۔