20 |
مشل اوباما
|
جنوری
کو جب براک اوباما امریکہ کے 44 ویں صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے
تو ان کی اہلیہ مشل اوباما بھی ایک نئی حیثیت سے سامنے آئیں گی اوراس نئی حیثیت کا نام ہے فرسٹ لیڈی یعنی خاتون
اول۔ یہ کوئی منتخب سرکاری عہدہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا عہدہ جس پر کسی کی
تعیناتی کی جاتی ہو لیکن اس کے باوجود صدارتی انتظامیہ میں فرسٹ لیڈی نمایاں کردار
ادا کرتی ہے۔
خاتون اول کے درجے پر فائز ہونے والی خواتین اپنے کردار کا
تعین خود کرتی ہیں۔ سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے نیشنل میوزیم آف امریکن ہسٹری کی
کیوریٹر لیزا کیتھ لین گریڈی کہتی ہیں کہ خاتون اول کی کوئی ذمہ داریاں ہوتی ہیں
اور نہ ان کے سپرد کوئی فرائض ہوتے ہیں۔
خاتون اول کا اولین اور قدیم ترین کردار میزبان کا ہے۔ تاہم مہمانوں کا
خیرمقدم کرنے کے علاوہ بھی وہ بہت کچھ کرتی ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی
کے جریدے ایلینر روزویلٹ پیپرز کی ایڈیٹر اور پراجیکٹ ڈائریکٹر ایلیڈا بیک
کہتی ہیں کہ خاتون اول کا کام صرف ڈنر
پارٹی کا انتظام کرنا ہی نہیں ہے بلکہ وائٹ ہاؤس کی پارٹی میں خاتون اول کا کردار
واشنگٹن کی سیاست کو سمجھنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ جس مقصد کے لیے ڈنر ترتیب
دیا گیا ہے ، وہ حاصل کرلیا جائے۔
گریڈی کہتی ہیں کہ اگر ہم تاریخ میں بہت پیچھے جاکرامریکہ کی پہلی خاتون اول مارتھا واشنگٹن کی
ذمہ داریوں پرایک نظر ڈالیں تو یہ پتا چلتاہے
کہ انہوں نے جنگِ آزادی کی پرجوش حامی کے طور پر ایک مثال قائم کی تھی۔ چنانچہ عام
طور پر خاتونِ اول اپنے لیے کوئی ایسا کام چن لیتی ہیں جس کا تعلق صرف ان کی ذات سے ہوتا ہے۔
1960ءکے شروع میں جیکولین کینڈی نے وائٹ ہاؤس کی تاریخی حیثیتکی بحالی کے لیے کام کیا۔اسی طرح لیڈی بیرڈ
جانسن نے شاہراؤں کی خوبصورتی کے لیے ان کے گرد خود رو پھول اگانے اور چھوٹے بچوں
کے لیے ہیڈ سٹارٹ پروگرام میں مدد دی۔
بٹلی فورڈ مساوی حقوق کی ترمیم کی نمایاں طورپر حامی تھیں اور چونکہ وہ سرطان
کے مرض سے صحت یاب ہوئیں تھیں اس لیے انہوں نے چھاتی کے سرطان کی آگاہی کے لیے
خاصا کام کیا۔
نینسی ریگن نے منشات کے خلاف مہم چلائی ۔ باربرا بشاور ان کی بہو لارا بش تعلیم کے پھیلاؤ کی
علمبردار تھیں۔ وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والی موجودہ خاتون اول لارا بش دنیا بھر کی
خواتین کی آواز کی علامت کے طور پر بھی سامنے آئیں۔
کئی خواتین اول نے غیرسرکاری طورپر بیرون ملک سفیروں کےطورپر بھی ذمہ داریاں
نبھائیں۔ ریلینور روزویلٹ نے 1940ءمیںیہ
منصب نبھایا۔ انہوں نے 1933ءمیں اپنے شوہر کے صدر بننے کے بعد امریکہ کے اندر
بہتدورے کیے۔ وہ یہ معلوم کرنا چاہتی
تھیں کہ لوگ کس طرح کی پالیسیاں چاہتے ہیں۔
خاتون اول کے طور پر ہلیری کلنٹن کا بھی پالیسیوں پر نمایاں عمل دخل رہا۔ صدر
بننے کے کچھ ہی دن بعد بل کلنٹن نے انہیں صحت کی دیکھ بھال سے متعلق اصلاحات کی
کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا تھا۔
تاریخ دان کارل
اینتھونی جو ’لیڈیز فرسٹ لیڈیز لائبریری‘ کے مصنف ہیں ، کہتے ہیں کہ نینسی ریگن نے
امریکہ اور سابق سویت یونین کے درمیان جب گورباچوف وہاں کے صدر تھے، تعلقات بہتر
بنانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
حالیہ صدارتی
انتخابی مہم میں جس میں ہلیری کلنٹن بھی شریک تھیں، لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ اس وقت خاتون
اول کا کردار کیا ہوگا جب وہ امریکی صدر
بن جائیں گی۔
مشال اوباما بھی جلد
ہی فیصلہ کرلیں گی خاتون اول کے طورپر انہوں نے صدر اور قوم کے لیے کیا ذمے داریاں
سنبھالنی ہیں۔اینتھونی کا کہناہے کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اپنی اس نئی حیثیت میں
وہ مختلف خاتون اول ثابت ہوں گی کیونکہ
انہیں ملکی اور بین الاقوامی طورپر غیر
معمولی حالات کا سامنا ہے۔