|
|
اس ہفتے براک اوباما کو منتقلی اقتدار کی تیاریوں کی خبروں نے امریکی میڈیا کی چھبیس فیصد جگہ گھیری جبکہ مشرق وسطی کی صورتحال امریکی اخبارات کے دوسری اہم سٹوری رہی۔ اوباما ٹیم کی نامزد وزیر خارجہ کی سینیٹ ہئیرنگ ، نومنتخب صدر کی ساس میرئین رابنسن کی ٹرائیل بیسز پروہائٹ ہاوس منتقلی پر رضامندی ،اوباما کی بیٹیوں کے ساتھ وائٹ ہاوس جانےو الا پپی کیسا ہوگا ، برطانیہ کے پرنس ہیری کے متنازعہ الفاظ کو تخت برطانیہ کی شان کے خلاف قرار دیاجانا ،چین کے شہر شنگھائی میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی لاگت سے نئے ڈزنی پارک کا منصوبہ ،اور آج کے دور کے سات بحری قزاقوں کا تذکرہ بھی امریکی اخبارات میں جاری رہا جو تاوان وصول کرنے کے بعد رقم سمیت ڈوب گئے۔ مگر پاکستان کےایٹمی پروگرام کے حوالے سے نئے امریکی صدر کو خبردار کرنے کی کوششیں بھی امریکی اخبارات میں جاری رہیں۔
دس جنوری کے نیویارک ٹائمز نے اوباماز ورسٹ پاکستان نائٹ مئیر کے عنوان سے ڈیوڈ ای سینگر کا ایک طویل آرٹیکل شائع کیا ہے ، جس میں مضمون نگار نے چکلالہ گیریزن کے سفر کا حال اور جنرل خالد قدوائی سے اپنی بات چیت کی تفصیلات لکھی ہیں۔ جن کے مطابق جنرل خالد قدوائی چکلالہ گیریزن میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے گرد قائم سیکیورٹی سٹرکچر کو بیرونی حملہ آوروں ،القاعدہ کے سائنسدانوں ،بھارتی منصوبہ سازوں اور ان امریکی کمانڈوز سے بچانے پر مامور ہیں جو ان کے خدشے کے مطابق کسی بھی خطرناک صورتحال میں پاکستان کےایٹمی ہتھیار اپنےقبضے میں لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ مضمون نگار کے مطابق اب امریکہ چاہے اپنے ایٹمی اسلحہ خانوں کے تحفظ کے لئے جتنے ارب ڈالر مرضی خرچ کرڈالے ،آخر میں جنرل قدوائی کے اس کمپاونڈ میں جو ہوگا امریکی شہروں کی سلامتی کا دارومدار اسی پر ہے۔ مضمون نگار کے مطابق ،فول پروف ،یقینا وہ لفظ نہیں ہے جس پر براک اوباما پاکستان کے ایٹٕمی ہتھیاروں کی سلامتی کے بارے میں یقین کریں گے۔
مشرق وسطی کا تنازعہ اس بار اتنے فلسطینیوں کی جان لے چکا ہے کہ واشنگٹں پوسٹ کے مطابق غزہ کے قبرستان تنگ پڑ گئے ہیں۔ دس جنوری کے نیویارک ٹائمز نے حماس اور اسرائیل دونوں کی جانب سے اقوام متحدہ کاتجویز کردہ امن معاہدہ مسترد کرنے پر مایوسی ظاہر کی ہے اور لکھا ہے کہ اگر اسرائیل کے بقول حماس اسرائیل کو ایک بڑی خونیں جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے تو اسرائیل نے بھی جنگ بندی کامطالبہ مسترد کر کے حماس کی خواہش پوری کردی ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی انتظامیہ کو جس نے اب تک اسرائیل کی حمایت کے سوا کچھ نہیں کیا ،اب اسرائیل پر جنگ بندی کے لئے دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے ،براک اوباما نے مشرق وسطی پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے مسئلے کے نئے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر غزہ کے ہلاک شدگان کی تصویریں عرب دنیا کی برہمی میں اضافہ کر رہی ہیں اور اردن اور مصر کو خدشہ ہے کہ صورتحال کی قیمت انہیں فلسطینی پناہ گزینوں کی صورت برداشت کرنی ہوگی اور اسرائیل فلسطین کی نام نہاد الگ مملکتوں کے قیام کا خواب پورا نہیں ہوگا۔
نیویارک ٹائمز نے بارہ جنوری کو الجزیرہ انگلش تک امریکی عوام کی محدود رسائی پر سٹوری شائع کی ہے جس کے مطابق اس ہفتے الجزیرہ غزہ کی جنگ کے بارے میں انٹرنیٹ پر موجود اپنا وڈیو میٹیریل ہرنیوز چینل کو استعمال کرنے کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی نیوز چینلزکو غزہ کی کوریج میں اسرائیلی پابندیوں کا سامنا ہے مگر الجزیرہ کے نمائندے غزہ کے اندر موجود ہیں۔ عراق جنگ کے دوران الجزیرہ کی کوریج کو امریکی وزیر دفاع ڈک چینی کے یکطرفہ قرار دینے کے بعد امریکہ میں الجزیرہ کی نشریات پر پابندی لگ گئی تھی۔
براک اوباما کی حلف برداری کی تیاریاں جاری ہیں مگر اس تقریب کی ریہرسل میں اوباما کی جگہ فرضی اوباما بن کر حلف اٹھانے والے سارجنٹ کی والدہ تو بہت ہی خوش ہیں۔ بیس جنوری کو حلف برداری کی تقریب کے لئے واشنگٹن پہنچنے والے افراد کی تعداد کا اندازہ بیس سے چالیس لاکھ کے درمیان ہے لیکن واشنگٹن ڈی سی آنے والوں کو کرائے پر رہائش فراہم کرنے کے خواہش مند زیادہ خوش نہیں کیونکہ اوباما کوحلف لیتے دیکھنے کے آرزو مند ایک رات کا ہزاروں ڈالر کرایہ ادا کرنے کوپھر بھی تیار نہیں۔ بیس جنوری کو ورجینیا اور واشنگٹن کے درمیان موجود تمام پل ٹریفک کے لئے بند کر دیئے جائیں گے اوربحث اس بات پر بھی ہے کہ اوباما کے فلاڈلفیا سے ٹرین پر واشنگٹن آنے کے دوران سیکیورٹی ریل ٹریک کے دونوں اطراف کو کیسے محفوظ بنائے گی۔
گیارہ ستمبر کی دہشت گردی کے بعدامریکی چینل فوکس کی مقبول سیریز ٹوئنٹی ٰ فور کا نیا سیزن امریکہ کی نئی خاتون صدر کی حلف برداری سے شروع ہوا ہے۔ سیریز میں دہشت گردی کے مجرموں سے تفتیش کے لئے تشدد کا وہی راستہ اختیار کیا گیا ہے جس کے لئے سیریز کے ہیرو کی طرح امریکی تحقیقاتی ادارے تنقید کی زد میں ہیں۔
براک اوباما نے اس ہفتے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شاید ان کے لئے گوانٹانامو بے کی جیل کو یکسر یا فوری بند کرنا آسان نہ ہو۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس کام میں ایک سال کا وقت لگ سکتا ہے۔
دس جنوری کے واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ براک اوباما نے وائٹ ہاؤس کے سابق چیف آف سٹاف لیون پنیٹا کو سی ائی اے کا سربراہ اور نیوی کے ریٹائرڈ ایڈمرل ڈیوڈ بلئیر کو نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر نامزد کر کے بش انتظامیہ کی قید اور تفتیش کی پالیسی سے شفاف علیحدگی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اوباما کا کہنا ہے کہ ان کی پالیسی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے لوگوں کے دل جیتنے میں مدد ملے گی۔ مگر اخبار کے مطابق اس پالیسی کو خود سی آئی اے کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی ریاست الینوئے نے اس ہفتے پہلی مرتبہ اپنے کسی گورنر کا مواخذہ کیا ہے۔ راڈ بلیگوئے وچ برطانوی شاعروں کی نظمیں دوہرا رہے ہیں اور مصر ہیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ بلیوگوئے وچ کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اس کا فیصلہ تو عدالت کرے گی۔ مگر اوباما کی خالی سینیٹ نشست کا قضیہ حل کرنے کا جو انتظام انہوں نے رولینڈ برس کو نامزد کر کے کیا تھا اور جس کے بارے میں گزشتہ ہفتے تک ڈیموکریٹس سخت برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس ہفتے رولینڈ برس کو جونئیر سینیٹر قبول کر لئے جانے پر ختم ہوا۔
امریکی سٹاک مارکیٹ سے دس ارب ڈالر کی چوری کرنےو الے برنارڈ میڈوف کو اس ہفتے عدالت نے ان کے دس ملین ڈالر کے پینٹ ہاؤس میں غیر معینہ مدت کے لئے نظر بند کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جس پر ان کی جعلی پانزی سکیم میں نقصان اٹھانے والے سرمایہ کار زیادہ خوش نہیں۔ امریکی ریاست انڈیانا کے ایک سرمایہ کارمارکس شرینکر کی تلاش جاری ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس نے قرض خواہوں سے فرار کے لئے اپناجہاز کریش کرنے کا جھوٹا ڈرامہ کیا ہے۔
معیشت کے بحران میں امریکی فاسٹ فوڈ چین میکڈونلڈ زبردست منافع سمیٹنے میں مصروف ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق حالیہ چند ماہ میں جب امریکی سٹاکس کی قیمتیں ایک تہائی سے بھی کم ہو گئی تھیں۔ میکڈونلڈ زاپنے شئیرزکی قیمت میں چھ فیصد اضافے کے ساتھ ڈاؤ جونز انڈسٹریل میں وال مارٹ سٹور زکے بعد دوسری کمپنی بن گیا ہے جس کے منافع میں مسلسل پچپن ماہ سے کوئی کمی نہیں آئی۔
اس ہفتے ہالی ووڈ کے گولڈن گلوب ایوارڈز میں بھارت کے پس منظر میں بننے والی فلم سلم ڈاگ ملئی نئیر بہترین ڈراما فلم قرار پائی۔ نیویارک ٹائمز نے گولڈن گلوب کو آسکر ایوارڈ کے راستے کا اہم سنگ میل قرار دیا ہے جسکی چمک دمک میں بحران کا شکار معیشت اور اداکاروں کی ہڑتال کے خدشات ڈھونڈنا آسان نہیں۔