بلوچستان کی واحد بڑی یونیورسٹی کو اپنی تاریخ کے شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور جامعہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر 283ملین روپے کی گرانٹ فراہم نہ کی گئی تو یونیورسٹی میں درس و تدریس اور ریسرچ کا کام بند ہوجائے گا جو پہلے ہی فنڈز نہ ہونے کے باعث شدید متاثر ہیں۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر معصوم خان یاسین زئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے رواں مالی سال کے دوران جامعہ کے بجٹ میں تقریباً 50فیصد کٹوتی کی ہے جس کے بعد مالی بحران سنگین ہوگیا ۔ان کے بقول اساتذہ کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کیلئے یونیورسٹی نے ایک بینک سے 130ملین روپے کا اوور ڈرافٹ لیا ہے جس کے سود کی مد میں ماہانہ 15لاکھ روپے ادا کئے جارہے ہیں ۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ یونیورسٹی کیلئے فنڈز کے حصول کیلئے صدر مملکت،وزیراعظم اور ایچ ای سی کے ساتھ وہ مسلسل رابطے میں ہیں کیونکہ بحیثیت رئیس الجامعہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ تدریسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے رقم کا بندوبست کریں ۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے اپنے محاصل انتہائی کم ہیں جو صرف 9فیصد بنتے ہیں جبکہ باقی 91فیصد اخراجات مرکزی حکومت فراہم کرتی رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت صوبے کے 56سکالرز بیرون ملک پی ایچ ڈی کی تعلیم کیلئے مقیم ہیں اور ہر سکالر پر تقریباً 65لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں مگر فنڈز نہ ہونے کے باعث بیرون ملک زیرتعلیم ان سکالرز کو رقم نہیں بھجوائی جارہی ہے جس سے ان کے تعلیمی سلسلے میں بھی رکاوٹیں آرہی ہیں اور یہی وہ سکالرز ہیں جو مستقبل میں صوبے کے تدریسی شعبے میں انقلاب لائیں گے۔
پروفیسر یاسین زئی کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد6ہزار ہے جن کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اس لئے ان سے معمولی سی تعلیمی فیس لی جاتی ہے جبکہ یہاں پڑھنے والے طلبہ کی ایک تہائی تعدادہاسٹلوں میں مقیم ہے اگر تعلیمی فیسوں میں اضافہ کیا گیا تو اس سے غریب طلبہ براہ راست متاثر ہونگے اور ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کا امکان ہے۔