|
بنکاک |
عالمی معاشی کساد بازاری کے باعث ایشیا میں لاکھوں کارکن اپنی ملازمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔ بنکاک میں جہاں شہری علاقوں میں برسوں تک ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے رہے ہیں، اب وہاں حکومت بے روزگار افراد کو دیہی علاقوں میں کھپانے کی کوشش کررہی ہے۔
علاقے میں فیکٹریوں کے بند ہونے کی خبروں میں اضافہ ہورہاہے ۔ زیادہ تر ملازمتیں منصوعات تیارکرنے والے شعبوں میں کم ہورہی ہیں جن میں کھلوناسازی سے لے کر موٹر گاڑیوں کے پرزے بنانے والی صنعتیں تک شامل ہیں۔ان صنعتوں میں پیداوار میں کمی یا سست روی کی وجہ عالمی اقتصادی بحران ہے۔
تھائی آٹو انڈسٹری ایسوسی ایشن کے سربراہ سپرات سری سواناگ کورا کا کہناہے کہ جس صنعت میں تین لاکھ کارکن ہواکرتے تھے وہ اس وقت انہیں بمشکل تنخواہیں دے رہی ہے۔ اور اس سال پیدا وار میں 20 سے30 فی صد تک مزید کمی ہونے کا اندیشہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی فیکٹری کو بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن بلاشبہ ہمیں کئی اقدامات کرنے پڑیں گے مثلا کسی کو ا وور ٹائم نہیں ملے گا یا بہت کم کو دیا جائے گا ، دوشفٹوں کی بجائے ایک شفٹ سے کام چلایا جائے گا،وغیرہ۔
ایشیائی حکومتوں کو بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور آنے والے سماجی عدم استحکام پر تشویش ہے۔ ملازمتوں سے سب سے زیادہ محروم ہونے والے افراد تارکین وطن ہیں جو اپنے علاقوں سے ایشیا کے بڑے شہروں میں کام کے لیے آئے ہیں۔
چین میں بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار بے روزگار ہوکر اپنے آبائی قصبوں کو واپس جارہے ہیں۔کچھ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً 80 لاکھ تھی جن میں بیشتر وہ لوگ تھے جو دیہاتوں سے شہروں میں کام کے لیے آئے تھے۔ چین میں ایسے افراد کی تعداد عام طور پر 13 کروڑ ہے ۔
کچھ ایشیائی حکومتوں کو توقع ہے کہ دیہی علاقوں میں نئی سرمایہ کاری سے بے روزگاری کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بیجنگ کو توقع ہے کہ اس کو چھ کھرب ڈالر کے امدادی منصوبے سے صوبوں میں کچھ کارکنوں کو دوبارہ روزگار دلانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اگلے چند مہینوں میں 60 سے70 لاکھ نئے گریجویٹ لیبر فورس میں شامل ہوجائیں گے۔ حکومت ان گریجویٹس کو کالج کی تعلیم کے اخراجات واپس کرنے کی پیش کش کررہی ہے جو دیہی علاقوں میں کام کرنے پر تیار ہوں گے۔
جاپان میں بھی حکومت اپنے بے روزگار نوجوانوں کو کھیتوں میں کام کی پیش کش کررہی ہے تاکہ کاشت کاروں کی ایک نئی کھیپ تیار کی جاسکے۔
تھائی لینڈ کی حکومت اپنے اقتصادی امدادی منصوبے کے سلسلے میں کاشت کاروں کو مزید مراعات دینے کا وعدہ کررہی ہے۔ جس سے ہزاروں لوگوں کوروزگار فراہم کرنے کی توقع پیدا ہوگئی ہے۔
ایشیائی خطے میں کھیتوں سے پیدا ہونے والی آمدنی کم ہوگئی ہے جب کہ گذشتہ سال زرعی اجناس کی قیمتیں ریکارڈ حد تک بلند ہونے کے بعد گر گئیں ہیں۔ کچھ ایشیائی عہدے داروں کا کہناہے کہ لیبر مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے ملازمتوں کو بالآخر واپس صنعتی شعبے میں واپس لانا ہوگا۔ عالمی معاشی کساد بازاری کے باعث ایشیا میں لاکھوں کارکن اپنی ملازمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔ بنکاک میں جہاں شہری علاقوں میں برسوں تک ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے رہے ہیں، اب وہاں حکومت بے روزگار افراد کو دیہی علاقوں میں کھپانے کی کوشش کررہی ہے۔
علاقے میں فیکٹریوں کے بند ہونے کی خبروں میں اضافہ ہورہاہے ۔ زیادہ تر ملازمتیں منصوعات تیارکرنے والے شعبوں میں کم ہورہی ہیں جن میں کھلوناسازی سے لے کر موٹر گاڑیوں کے پرزے بنانے والی صنعتیں تک شامل ہیں۔ان صنعتوں میں پیداوار میں کمی یا سست روی کی وجہ عالمی اقتصادی بحران ہے۔
تھائی آٹو انڈسٹری ایسوسی ایشن کے سربراہ سپرات سری سواناگ کورا کا کہناہے کہ جس صنعت میں تین لاکھ کارکن ہواکرتے تھے وہ اس وقت انہیں بمشکل تنخواہیں دے رہی ہے۔ اور اس سال پیدا وار میں 20 سے30 فی صد تک مزید کمی ہونے کا اندیشہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی فیکٹری کو بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن بلاشبہ ہمیں کئی اقدامات کرنے پڑیں گے مثلا کسی کو ا وور ٹائم نہیں ملے گا یا بہت کم کو دیا جائے گا ، دوشفٹوں کی بجائے ایک شفٹ سے کام چلایا جائے گا،وغیرہ۔
ایشیائی حکومتوں کو بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور آنے والے سماجی عدم استحکام پر تشویش ہے۔ ملازمتوں سے سب سے زیادہ محروم ہونے والے افراد تارکین وطن ہیں جو اپنے علاقوں سے ایشیا کے بڑے شہروں میں کام کے لیے آئے ہیں۔
چین میں بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار بے روزگار ہوکر اپنے آبائی قصبوں کو واپس جارہے ہیں۔کچھ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً 80 لاکھ تھی جن میں بیشتر وہ لوگ تھے جو دیہاتوں سے شہروں میں کام کے لیے آئے تھے۔ چین میں ایسے افراد کی تعداد عام طور پر 13 کروڑ ہے ۔
کچھ ایشیائی حکومتوں کو توقع ہے کہ دیہی علاقوں میں نئی سرمایہ کاری سے بے روزگاری کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بیجنگ کو توقع ہے کہ اس کو چھ کھرب ڈالر کے امدادی منصوبے سے صوبوں میں کچھ کارکنوں کو دوبارہ روزگار دلانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اگلے چند مہینوں میں 60 سے70 لاکھ نئے گریجویٹ لیبر فورس میں شامل ہوجائیں گے۔ حکومت ان گریجویٹس کو کالج کی تعلیم کے اخراجات واپس کرنے کی پیش کش کررہی ہے جو دیہی علاقوں میں کام کرنے پر تیار ہوں گے۔
جاپان میں بھی حکومت اپنے بے روزگار نوجوانوں کو کھیتوں میں کام کی پیش کش کررہی ہے تاکہ کاشت کاروں کی ایک نئی کھیپ تیار کی جاسکے۔
تھائی لینڈ کی حکومت اپنے اقتصادی امدادی منصوبے کے سلسلے میں کاشت کاروں کو مزید مراعات دینے کا وعدہ کررہی ہے۔ جس سے ہزاروں لوگوں کوروزگار فراہم کرنے کی توقع پیدا ہوگئی ہے۔
ایشیائی خطے میں کھیتوں سے پیدا ہونے والی آمدنی کم ہوگئی ہے جب کہ گذشتہ سال زرعی اجناس کی قیمتیں ریکارڈ حد تک بلند ہونے کے بعد گر گئیں ہیں۔ کچھ ایشیائی عہدے داروں کا کہناہے کہ لیبر مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے ملازمتوں کو بالآخر واپس صنعتی شعبے میں واپس لانا ہوگا۔عالمی معاشی کساد بازاری کے باعث ایشیا میں لاکھوں کارکن اپنی ملازمتوں سے محروم ہورہے ہیں۔ بنکاک میں جہاں شہری علاقوں میں برسوں تک ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے رہے ہیں، اب وہاں حکومت بے روزگار افراد کو دیہی علاقوں میں کھپانے کی کوشش کررہی ہے۔
علاقے میں فیکٹریوں کے بند ہونے کی خبروں میں اضافہ ہورہاہے ۔ زیادہ تر ملازمتیں منصوعات تیارکرنے والے شعبوں میں کم ہورہی ہیں جن میں کھلوناسازی سے لے کر موٹر گاڑیوں کے پرزے بنانے والی صنعتیں تک شامل ہیں۔ان صنعتوں میں پیداوار میں کمی یا سست روی کی وجہ عالمی اقتصادی بحران ہے۔
تھائی آٹو انڈسٹری ایسوسی ایشن کے سربراہ سپرات سری سواناگ کورا کا کہناہے کہ جس صنعت میں تین لاکھ کارکن ہواکرتے تھے وہ اس وقت انہیں بمشکل تنخواہیں دے رہی ہے۔ اور اس سال پیدا وار میں 20 سے30 فی صد تک مزید کمی ہونے کا اندیشہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی فیکٹری کو بند کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن بلاشبہ ہمیں کئی اقدامات کرنے پڑیں گے مثلا کسی کو ا وور ٹائم نہیں ملے گا یا بہت کم کو دیا جائے گا ، دوشفٹوں کی بجائے ایک شفٹ سے کام چلایا جائے گا،وغیرہ۔
ایشیائی حکومتوں کو بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور آنے والے سماجی عدم استحکام پر تشویش ہے۔ ملازمتوں سے سب سے زیادہ محروم ہونے والے افراد تارکین وطن ہیں جو اپنے علاقوں سے ایشیا کے بڑے شہروں میں کام کے لیے آئے ہیں۔
چین میں بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار بے روزگار ہوکر اپنے آبائی قصبوں کو واپس جارہے ہیں۔کچھ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال بے روزگار افراد کی تعداد تقریباً 80 لاکھ تھی جن میں بیشتر وہ لوگ تھے جو دیہاتوں سے شہروں میں کام کے لیے آئے تھے۔ چین میں ایسے افراد کی تعداد عام طور پر 13 کروڑ ہے ۔
کچھ ایشیائی حکومتوں کو توقع ہے کہ دیہی علاقوں میں نئی سرمایہ کاری سے بے روزگاری کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بیجنگ کو توقع ہے کہ اس کو چھ کھرب ڈالر کے امدادی منصوبے سے صوبوں میں کچھ کارکنوں کو دوبارہ روزگار دلانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن اگلے چند مہینوں میں 60 سے70 لاکھ نئے گریجویٹ لیبر فورس میں شامل ہوجائیں گے۔ حکومت ان گریجویٹس کو کالج کی تعلیم کے اخراجات واپس کرنے کی پیش کش کررہی ہے جو دیہی علاقوں میں کام کرنے پر تیار ہوں گے۔
جاپان میں بھی حکومت اپنے بے روزگار نوجوانوں کو کھیتوں میں کام کی پیش کش کررہی ہے تاکہ کاشت کاروں کی ایک نئی کھیپ تیار کی جاسکے۔
تھائی لینڈ کی حکومت اپنے اقتصادی امدادی منصوبے کے سلسلے میں کاشت کاروں کو مزید مراعات دینے کا وعدہ کررہی ہے۔ جس سے ہزاروں لوگوں کوروزگار فراہم کرنے کی توقع پیدا ہوگئی ہے۔
ایشیائی خطے میں کھیتوں سے پیدا ہونے والی آمدنی کم ہوگئی ہے جب کہ گذشتہ سال زرعی اجناس کی قیمتیں ریکارڈ حد تک بلند ہونے کے بعد گر گئیں ہیں۔ کچھ ایشیائی عہدے داروں کا کہناہے کہ لیبر مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے ملازمتوں کو بالآخر واپس صنعتی شعبے میں واپس لانا ہوگا۔