گذشتہ 30 برسوں میں معروف مصنف گیل سٹراب نےدنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کو اپنی زندگیوں کا مطلب اور مقصد سمجھانے کے لیے کام کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک نئی کتاب ’ریٹرننگ ٹو مائی مدرز ہاؤس‘ میں خواتین کی بصیرت کو موضوع بنایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اکثر خواتین کو اپنی سماجی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی نسوانی ذات سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
اپنی کتاب میں سٹراب اپنی ماں کی زندگی کا حوالہ دیتے ہوسے لکھتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے ایک اچھی خاتون خانہ اور کارکن ماں کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اپنے ذاتی خواب قربان کیے ۔وہ کہتی ہے کہ دنیا بھر میں بے شمار کی خواتین کی یہی کہانی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بیشتر خواتین عمر کے ایک خاص حصےپر پہنچ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی ایسی بنیادی چیز ہے جس سے وہ محروم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں 55 سال کی ہوئی اور یہ وہ عمر تھی جس میں میری والدہ کا انتقال ہواتھا تو میں نے اپنے اندر ایک روحانی خلا محسوس کیا۔اور مجھے یہ احساس ہوا کہ مجھے اپنی ماں کے لیے یعنی خود اپنی نسوانی بصیرت کے کچھ کرنا ہے۔
سٹراب کہتی ہیں کہ زیادہ تر خواتین جب زندگی میں سماجی کامیابیوں کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں تو ان کا اپنی نسوانی بصیرت سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ جب ہم کام کررہے ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش کررہے ہوتے ہیں تو ہم بہت مصروف ہوتے ہیں۔ ان کا کہناہےکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ کام اہم ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ زندگی کی اس جدوجہد کے دوران ہم اکثر اوقات اپنی اندر کی ذات کی تعمیر کا موقع نہیں ملتا۔یہ چیزیں ہیں ہمارے اپنے جذبات اور اپنی بصیرت۔
اپنی کتاب میں سٹراب نے خواتین کو اپنی ذات کی تعمیر اور بقا کے مختلف طریقے بتائے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی نسوانی بصیرت دوبارہ حاصل کرسکتی ہیں۔ان میں اپنے جذبات اور اندر کی آواز پر دھیان دینا ، اپنے گھر اور کمیونٹی کی تعمیر اور تخلیقی فنون میں مشغول رہنا شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اپنے خیالات کو تحریر میں لانا، مجسمہ سازی، مصوری، رقص ، موسیقی، گلوکاری یہ سب تخلیقی فنون اپنی ذات کے اظہار کے طریقے ہیں۔اس کے ساتھ وہ اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ خواتین کو اپنے نسوانی حلقے بھی تشکیل دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن میں ان کی مائیں، خالائیں، نانیاں، دادیاں اور ہماری قریبی سہلیاں شامل ہوتی ہیں۔ ہم ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
سٹراب کہتی ہیں کہ جب خواتین اپنی ذات اور اپنی نسوانی بصیرت کو دریافت کرلیتی ہیں تو وہ مختلف قسم کے تجربات اور طرز زندگی اپنانے کے لیے زیادہ بہتر انداز تیار ہوجاتی ہیں ۔
سٹراب نے اپنے شوہر ڈیوڈ گیریشن کے ساتھ ، جو نیویارک میں قائدانہ صلاحیتوں سے متعلق ایک ادارے کے ڈائریکٹر ہیں، مل کر کام کیا اور انہیں دنیا بھر کی خواتین سے ملنے اور ان کی زندگیوں کی کہانیاں سننے کا موقع ملا۔وہ کہتی ہیں کہ اس ادارے میں ان کی ملاقات روانڈا، جنوبی افریقہ، کمبوڈیااور افغانستان کی خواتین سے ہوئی۔ان سے ملنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ دنیا بھر میں خواتین کے مسائل تقریباً ایک جیسے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایسے ادارے دنیا بھر کی خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے ادراک اور ان کے بہترین استعمال کے طریقے سکھانے میں مدد دیتے ہیں جس کے نتیجے میں خواتین نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے گھرانوں، اپنے معاشروں اوراپنے ملک و قوم کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہیں۔
سٹراب کہتی ہیں کہ جب ان خواتین نے اپنی ذات کو پہچانا اور اپنی نسوانی بصیرت کو استعمال کیا تو ان کی زندگیوں میں ایک توازن پیدا ہوا۔ انہوں نے ادارے میں تربیت حاصل کرنے والی ایک افغان خاتون ملوشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب وہ کابل میں خواتین کی تربیت سے متعلق ایک ادارہ چلارہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ملوشی دوسری افغان خواتین کو اپنے آپ کو پہچاننے ، اپنی بصیرت سے مدد لینے اور بلا خوف و خطراظہارِ ذات میں مدد دے رہی ہیں۔
سٹراب کا کہنا ہے کہ مختلف معاشروں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین سے ملنے، اور ان سے ان کے تجربات پر گفتگو کرنے سے اپنی ذات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دورمیں دوسری خواتین تک رسائی اور بھی آسان ہوچکی ہے اور آپ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور تجربات کا آپس میں تبادلہ کرکے اپنی نسوانی بصیرت میں اضافہ کر سکتی ہیں۔