Urdu ▪ وائس آف امریکہ غیر جانبدار خبریں | دلچسپ معلومات

VOANews.com

05 جنوری 2009 

آج وی او اے پر:

45 زبانوں میں خبریں
نئی اوباما حکومت اور عالمی تپش کا مسئلہ

January 5, 2009

A farmer waits for rain on his drought hit paddy field in Morigoan in India’s northeastern state of Assam (File)
  خشک سالی کا شکار جنوبی ایشیا کا ایک کسان
نو منتخب صدر براک اوباما کی حلف برداری کی تاریخ میں اب تقریباً دو ہفتے باقی ہیں۔ انھوں نے اپنی کابینہ اور اعلیٰ عہدے داروں کی فور ی نامزدگی کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ انہوں نے جن لوگوں کا تقرر کیا ہے، ماحولیات کے ماہرین ان سے مطمئن معلوم ہوتے ہیں۔ تا ہم جو لوگ صدر اوباما کی ماحولیات اور توانائی کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنائیں گے، ان کو ماہرین نے کچھ مشورے دیے ہیں۔

نیوز کانفرنس میں ماحولیات اور توانائی کے شعبوں کی ٹیم کا اعلان کرتے ہوئے نو منتخب صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے پیغام کو دہرایا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ آب و ہوا کی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹے گی اور توانائی کے نئے ذرائع اور اس کے استعمال کے نئے طریقے دریافت کرے گی:

’یہ میرے عہدِ صدارت کی ایک اہم ترجیح اور ہمارے دور کی اہم آزمائش ہو گی۔ہم مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ سکتے، اور نہ ہی ایسے وعدے قبول کر سکتے ہیں جو پورے نہ کیے جائیں۔ ہم توانائی کی نئی معیشت راتوں رات تیار نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے ماحول کی حفاظت کا کام راتوں رات مکمل نہیں کر سکتے، لیکن اگر ہم نئے انداز سے سوچنا اور کام کرنا شروع کر دیں تو ہم یہ کام فوری طور پر شروع کر سکتے ہیں۔‘
 
اِس کام کی ابتدا کیسے کی جائے، اِس بارے میں ماحول کے ماہرین کے پاس کچھ تجاویز ہیں۔ نومبر کے آخر میں ماحول کے تحفظ کے لیئے سرگرم 29 تنظیموں نے اوباما کی ٹرانزیشن ٹیم کو ماحول کے تحفظ کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ 391 صفحات کی اِس رپورٹ میں ماحول کی حفاظت اور اقتصادی بحالی، دونوں مقاصد پر بیک وقت توجہ دی گئی ہے۔ نیشنل وائلڈ لائف فیڈریشن کے صدر لیری شوائگر کہتے ہیں کہ میرے خیال میں ہمیں اس وقت سب سے پہلے جو چیز کرنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ ہم مالیاتی بحران سے نکلیں اور ایسا کرتے وقت ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں جن سے کاربن کے اخراج میں کمی واقع ہو اور آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے۔

توقع ہے کہ اوباما انتظامیہ کے شروع کے دنو ں میں ہی امریکی کانگریس اقتصادی بحالی کا پیکیج منظور کرے گی۔ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے جوناتھن لیش کہتے ہیں کہ اِس پیکیج کی رقم کِس طرح خرچ کی جاتی ہے، اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ قانون ساز ماحول کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ ماحول کے نقطۂ نظر سے بنیادی سوال یہ ہو گا کہ کتنی رقم روایتی تعمیری منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے اور کتنی رقم مستقبل کی کم کاربن والی، اور اعلیٰ کارکردگی کی معیشت پر خرچ ہو تی ہے۔

براک اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں کاربن کے بخارات کم کرنے پر زور دیا تھا۔ اِس پروگرام کو امریکی کانگریس اور امریکہ کی بہت سے کمپنیوں کی حمایت حاصل ہے ۔توانائی کی وزارت کے لیے مسٹر اوباما نے نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعات سٹیون چو کو نامزد کیا ہے۔ وہ بھی اِس پروگرام کے حامی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ دنیا آنے والے عشروں میں جو کچھ کرے گی اس کے اثرات صدیو ں تک باقی رہیں گے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم اپنا کام بلا تاخیر شروع کر دیں۔

نئی امریکی کانگریس کے ایجنڈے میں آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں مسودۂ قانون بہت اہم ہوگا۔ لیکن جوناتھن لیش کہتے ہیں کہ اِس بارے میں پچھلی امریکی کانگریس کو جو تشویش تھی وہ باقی رہے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم امریکی صنعت پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کم کرنے کا خرچ ڈال دیتے ہیں، اور دوسرے ملک، جیسے چین، ایسا نہیں کرتے تو روزگار کے مواقع ہمار ے ملک سے چین منتقل ہو جائیں گے اور مالیاتی بحران کے اِس دور میں ہماری مشکلات میں اور اضافہ ہو جائے گا۔

 یہی وجہ تھی کہ بُش انتظامیہ نے کیوٹو پروٹوکول سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ اِس سمجھوتے سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچے گا جب کہ چین اور بھارت کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو کاربن کے اخراج کے اہداف کونظر انداز کرنے کی کھلی چھٹی مِل جائے گی۔

 2008ءمیں دنیا میں آلودگی پھیلانے کے معاملے میں چین نے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دنیا میں جتنی گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں اس کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ امریکہ اور چین خارج کرتے ہیں۔ دنیا میں حدت میں اضافے کے خلاف امریکہ کی کوششوں کی رہنمائی کے لیئے مسٹر اوباما نے کیرول براؤنر کو نامزد کیا ہے۔ وہ وہائٹ ہاؤس میں اپنے نئے دفتر سے توانائی اور آب و ہوا کی پالیسی کو مربوط کریں گی۔ وہ کہتی ہیں:

 ’ہم روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں، گرین ہاؤس گیسوں کے بخارات کم کر سکتے ہیں، غیر ملکی تیل پر اپنا انحصار کم کر سکتے ہیں، اور ماحولیاتی اعتبار سے پائید ار عالمی معیشت کو فروغ دے کر امریکہ کی قیادت کو بحال کر سکتے ہیں۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم مِل جُل کر کام کریں۔ ہمیں دونوں پارٹیوں کو اورسرکاری اور نجی دونوں شعبوںکو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور ہمیں دنیا بھر سے اپنے شراکت داروں کے بہترین لوگوں کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔‘

 جوناتھن لیش اس نقطۂ نظر سے متفق ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ اِس سال ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار چین جائیں گے۔ ان کے ساتھ جو میٹنگیں ہوں گی، ان کے نتیجے میں 2012ءمیں موجودہ کیوٹو پروٹوکول کی مدت ختم ہونے پر آب و ہوا کے نئے عالمی سمجھوتے کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔


E-mail This Article اس صفحے کو ای میل کیجیے
Print This Article قابل چھپائی صفحہ
  اہم ترین خبر

  مزید خبریں
امریکی خاتون اول کا کردار
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نظرِ ثانی کی جائے: برطانوی وزیرِ خارجہ
ہانگ کانگ: فضائی آلودگی کے باعث لوگ شہر چھوڑرہے ہیں
اقوامِ متحدہ کے احاطے پر حملہ: بان گی مون کا شدید ردِ عمل
محمد آصف ڈوپ ٹیسٹ  کیس: آئی سی سی کی پی سی بی سے جواب طلبی
ملی بینڈ بیان: ’بھارت کو بن مانگے مشورے کی ضرورت نہیں‘
افغان جنرل ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوگیا
مشرق وسطیٰ میں اثر ورسوخ بڑھانے کی چینی کوششیں
غزہ میں اقوامِ متحدہ کا احاطہ اور ہسپتال اسرائیلی گولا باری کا نشانہ
اوباما بش سے عبرت حاصل کریں
کیفی اعظمی کی شعری کائنات
لندن میں کشمیر فیشن شو:  بھارتی، پاکستانی اور انگریز  ماڈلز
خراسان اور  پنجاب کے مابین پانچ مفاہمتی  یادداشتوں پر دستخط
افغانستان: ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل سمیت 13فوجی ہلاک
پاکستان نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں آٹھویں نمبر پر
مزاحیہ فنکار شکیل صدیقی وطن واپس ، انتہا پسند ہندووں کی دھمکیوں نے بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا
”ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کا تاثرغلط ہے“
بلوچستان کی واحد بڑی یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار