کسی بھی سیاسی امیدوار کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن جو امیدوار وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوتاہے اس کے لیے مشکلات کا ایک اور دروازہ کھل جاتا ہے۔ نومنتخب صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ معیشت کی بحالی ان کی اولین ترجیح ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں کا کہناہے کہ ممکن ہے کہ اوباما صدر بش کی کچھ پالیسیوں پر عمل درآمد ختم کردیں۔
نومنتخب صدر براک اوباما کو جو چیلنجز درپیش ہے ان کا سامنا گذشتہ کئی عشروں میں کسی بھی امریکی صدر کو نہیں ہوا ہے۔ معاشی بحران اور کانگریس کا منظور کردہ سات کھرب ڈالر کا امدای پیکیج انہیں وراثت میں ملا ہے۔ وہ ایک ایسی فوج کے سربراہ ہوں کے جو عراق اور افغانستان میں حالت جنگ میں ہے۔ انہیں ایسے غیر ملکی راہنماؤں کا بھی سامنا ہوگا جو کھلے عام امریکہ پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں براک اوباما نے کہا ہے معیشت کی بحالی ان کی اولین ترجیج ہوگی۔
امریکی تھنک ٹینک ہیری ٹیج فاؤنڈیشن سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار برائن ڈارلنگ کا کہنا ہے کہ براک اوباما کو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے دران کیے جانے والے پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام اب بھی اپنے آپ کو قدامت پسند سمجھتے ہیں۔ یہ قوم اب بھی روایت پرست ہے اور اسی لیے صدر براک اوباما کے لیے اسلحے پر پابندی اور شاید ہم جنس پرست جوڑوں کی شادیوں کے حوالے سے قانون سازی میں مشکل ہوگی کیونکہ ا مریکی عوام اسے پسند نہیں کریں گے۔
سابق صدر بل کلنٹن کے چیف آف سٹاف کا کہنا ہے کہ سابق صدرنے ہم جنس جوڑوں کی شادیوں کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ بل کلنٹن نے سب سے پہلے ہم جنس شادیوں کا معاملہ اٹھایا۔ اس مسئلے سے صدارت کا آغاز بڑی غلطی تھی۔ آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن ہم جنس جوڑے فوج میں بھی تھے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے معاملات پر توجہ مرکوز کریں جو سب سے زیادہ اہم ہو۔ براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ ان کی اولین ترجیج معیشت کی بحالی ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار سٹیفن ہس وائٹ ہاؤس میں کئی امریکی صدور کے ساتھ مشیر کے طورپر کام کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ براک اوباما ، سابق صدر ریگن کی نسبت زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں کیونکہ کانگریس میں ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔
نومنتخب صدر براک اوباما 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔