’امن کی ثقافت‘ نامی اقوام متحدہ کی بین المذاہب کانفرنس کے پہلے دن اگرچہ دنیا کے کئی بڑے رہنماؤں نے دنیا میں امن اور برداشت کی ضرورت پر زور دیا لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس مقصد کو حاصل کرنے یا دنیا سے کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے لیے کوئی راستا تجویز نہیں کیا۔
جن بڑے رہنماؤں نے بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا ان میں سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے علاوہ اسرائیلی صدر شمعون پیریز، افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور پاپائے روم کے نمائندے شامل تھے۔
اسرائیلی رہنما نے اپنے خطاب میں براہ راست سعودی شاہ عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کا پیغام سنا ہے اور میری خواہش ہے کہ آپ کی آواز خطے کی آواز بن جائے۔
عرب اسرائیلی امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر پیریز نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک دونوں ہی مشرق وسطٰی میں امن اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے فلسطینیوں سے مذاکرات کو آگے بڑھانا ہوگا اور دونوں ہی فریقوں کو قربانی دینی ہوگی۔
شاہ عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’دہشت گردی اور جرائم ہر مذہب اور ثقافت کے دشمن ہیں’ اور ’آج ہم پوری دنیا کے سامنے ایک آواز سے یہ کہتے ہیں کہ خدا نے مذاہب کو انسان کے لیے خوشی کا ذریعہ بنایا ہے، اور انہیں انسانوں کو تکلیف دینے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔”
انہوں نے میڈرڈ میں ہونے والی کانفرنس کے شرکا کو دعوت دی کہ وہ مل کر ایک کمیٹی بنائیں جو ان کی نمائندگی کرتی ہو اور آئندہ بات چیت کو جاری رکھ سکے۔
جولائی میں شاہ عبداللہ نے سپین کے شہر میڈرڈ میں دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے نمائندوں کو جمع کیا تھا تاکہ آپس میں بات چیت کو فروغ دیا جائے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور مذہب میں کوئی باہمی تعلق نہیں اور دنیا میں جاری دہشت گردی دراصل غلط سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب، امریکہ، جاپان، چین، بھارت، ایران اور پاکستان جیسے ممالک مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔”
یہ کانفرنس سعودی فرماں روا کے ایما پر منعقد کی گئی ہے۔ جمعرات کو اس کانفرنس سے پاکستانی صدر آصف زرداری اور امریکی صدر جارج بش خطاب کریں گے۔
بعض ناقدین نے اعتراض کیا ہے کہ اس کانفرنس کا روح و رواں سعودی عرب خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دیگر مذاہب کے خلاف عدم برداشت کے لیے مشہور ہے اور خود سعودی عرب میں دیگر مذاہب کے ماننے والے آزادی سے اپنے مذہب کی پیروی نہیں کر سکتے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ڈینا پرینو کے مطابق صدر بش اس کانفرنس کو خوش آئند سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سعودی رہنما کو اندازہ ہے کہ ان کا ملک ابھی خود اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے، لیکن شاہ عبداللہ اس سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں۔