Urdu ▪ وائس آف امریکہ
غیر جانبدار خبریں  |  دلچسپ معلومات

صرف متن
Search

اقوامِ متحدہ میں بین المذاہب امن کانفرنس


November 12, 2008

’امن کی ثقافت‘ نامی اقوام متحدہ کی بین المذاہب کانفرنس کے پہلے دن اگرچہ دنیا کے کئی بڑے رہنماؤں نے دنیا میں امن اور برداشت کی ضرورت پر زور دیا لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس مقصد کو حاصل کرنے یا دنیا سے کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے لیے کوئی راستا تجویز نہیں کیا۔

جن بڑے رہنماؤں نے بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا ان میں سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے علاوہ اسرائیلی صدر شمعون پیریز، افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور پاپائے روم کے نمائندے شامل تھے۔

اسرائیلی رہنما نے اپنے خطاب میں براہ راست سعودی شاہ عبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کا پیغام سنا ہے اور میری خواہش ہے کہ آپ کی آواز خطے کی آواز بن جائے۔

عرب اسرائیلی امن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر پیریز نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک دونوں ہی مشرق وسطٰی میں امن اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے فلسطینیوں سے مذاکرات کو آگے بڑھانا ہوگا اور دونوں ہی فریقوں کو قربانی دینی ہوگی۔

شاہ عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ  ’دہشت گردی اور جرائم ہر مذہب اور ثقافت کے دشمن ہیں’ اور ’آج ہم پوری دنیا کے سامنے ایک آواز سے یہ کہتے ہیں کہ خدا نے مذاہب کو انسان کے لیے خوشی کا ذریعہ بنایا ہے، اور انہیں انسانوں کو تکلیف دینے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔”

انہوں نے میڈرڈ میں ہونے والی کانفرنس کے شرکا کو دعوت دی کہ وہ مل کر ایک کمیٹی بنائیں جو ان کی نمائندگی کرتی ہو اور آئندہ بات چیت کو جاری رکھ سکے۔

جولائی میں شاہ عبداللہ نے سپین کے شہر میڈرڈ میں دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے نمائندوں کو جمع کیا تھا تاکہ آپس میں بات چیت کو فروغ دیا جائے۔  

افغان صدر حامد کرزئی نے اقوام متحدہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور مذہب میں کوئی باہمی تعلق نہیں اور دنیا میں جاری دہشت گردی دراصل غلط سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب، امریکہ، جاپان، چین، بھارت، ایران اور پاکستان جیسے ممالک مل کر افغانستان کی تعمیر نو میں ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔”

یہ کانفرنس سعودی فرماں روا کے ایما پر منعقد کی گئی ہے۔  جمعرات کو اس کانفرنس سے پاکستانی صدر آصف زرداری اور امریکی صدر جارج بش خطاب کریں گے۔

بعض ناقدین نے اعتراض کیا ہے کہ اس کانفرنس کا روح و رواں سعودی عرب خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دیگر مذاہب کے خلاف عدم برداشت کے لیے مشہور ہے اور خود سعودی عرب میں دیگر مذاہب کے ماننے والے آزادی سے اپنے مذہب کی پیروی نہیں کر سکتے۔
 
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ڈینا پرینو کے مطابق صدر بش اس کانفرنس کو خوش آئند سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سعودی رہنما کو اندازہ ہے کہ ان کا ملک ابھی خود اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے، لیکن شاہ عبداللہ اس سلسلے میں اقدامات کر رہے ہیں۔

emailme.gif اس صفحے کو ای میل کیجیے
printerfriendly.gif قابل چھپائی صفحہ

  اہم ترین خبر
جماعت الدعوة کے 124 اراکین گرفتار کیے، ممبئی حملوں کی تفتیش میں سنجیدہ

  مزید خبریں
امریکی خاتون اول کا کردار
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نظرِ ثانی کی جائے: برطانوی وزیرِ خارجہ
ہانگ کانگ: فضائی آلودگی کے باعث لوگ شہر چھوڑرہے ہیں
اقوامِ متحدہ کے احاطے پر حملہ: بان گی مون کا شدید ردِ عمل
محمد آصف ڈوپ ٹیسٹ  کیس: آئی سی سی کی پی سی بی سے جواب طلبی
ملی بینڈ بیان: ’بھارت کو بن مانگے مشورے کی ضرورت نہیں‘
افغان جنرل ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوگیا
مشرق وسطیٰ میں اثر ورسوخ بڑھانے کی چینی کوششیں
غزہ میں اقوامِ متحدہ کا احاطہ اور ہسپتال اسرائیلی گولا باری کا نشانہ
اوباما بش سے عبرت حاصل کریں
کیفی اعظمی کی شعری کائنات
لندن میں کشمیر فیشن شو:  بھارتی، پاکستانی اور انگریز  ماڈلز
خراسان اور  پنجاب کے مابین پانچ مفاہمتی  یادداشتوں پر دستخط
افغانستان: ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل سمیت 13فوجی ہلاک
پاکستان نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں آٹھویں نمبر پر
مزاحیہ فنکار شکیل صدیقی وطن واپس ، انتہا پسند ہندووں کی دھمکیوں نے بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا
”ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کا تاثرغلط ہے“
بلوچستان کی واحد بڑی یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار