![Prayer](https://webarchive.library.unt.edu/eot2008/20090115210419im_/http://www.voanews.com/urdu/images/2_Prayer_T.bmp.jpg) |
مسلم خواتین ادائے نماز کے دوران |
اس ہفتے گیلپ ورلڈ پول نے 50 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کے ایک بڑے سروے کی تفصیلات جاری کی ہیں جن سے 35 سے زیادہ ملکوں کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے خیالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس سروے کو اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور سب سے جامع مطالعاتی جائزہ کہا گیا ہے۔
چھ سال کے عرصے کے دوران ہونے والے اس سروے میں امریکہ، انتہاپسندی اور جمہوریت کے بارے میں مسلمانوں کے نظریات سے متعلق سوالات کا سلسلہ شامل تھا۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگان پر 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کو تقریباً سات سال ہوگئے ہیں لیکن پھر بھی اس بارے میں ابھی تک کچھ سوالات کے جواب نہیں ملے ہیں کہ مسلمان انتہاپسندوں کے اس گروہ نے اس دن امریکہ کو اپنا ہدف کیوں بنایاتھا۔ان سوالوں میں ایک یہ سوال بھی شامل ہے کہ دوسرے مسلمان دہشت گردی کے موضوع پر کیوں خاموش رہے ہیں۔
جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ اگرچہ جواب دینے والوں کی ایک مختصر تعداد انتہا پسند نظریات کی حامل ہے، تاہم تاہم مسلمانوں کی بڑی اکثریت،یعنی92 فی صد اعتدال پسند ہے۔
گیلپ کی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ کچھ مسائل ایسے ہیں جس پر سیاسی انتہاپسند اور اعتدال پسند متفق ہوسکتے ہیں۔سروے میں کہا گیا ہے کہ اس بارے میں واحد اختلاف مسائل کو محسوس کرنے کی شدت کا ہے۔
ڈائیلا مجاہد گیلپ کی سینیئر تحزیہ کار اور مسلم اسٹڈیز کے گیلپ سینٹر کی سربراہ ہیں جو واشنگٹن ڈی سی میں قائم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام پر الزام عائد کرنا پوری مسلم دنیا کےان اہم سیاسی مسائل اور شکایتوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی نسبت زیادہ آسان ہےجن کی وجہ سے بہت سے مسلمان انتہاپسند تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
ڈائیلا کہتی ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹیکنالوجی، اس کی آزادیِ اظہار اور سخت محنت کے نظام کے قائل ہیں۔تاہم سروے سے ظاہر ہوا کہ امریکی پالیسی کے بارے میں سب کی رائے تقریباً ایک سی تھی۔
جان ایپو سیٹو کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اس پر متفق ہیں کہ مغربی حکومتیں مسلم ثقافت اور مذہب کو دہشت گردی سے الگ کرنے کی بات کرتے ہوئے اپنے لہجے میں نرمی لا کرتعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتی ہیں۔
جان ایپوسیٹو اور ڈائیلا دونوں اس پر متفق ہیں کہ امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ بڑے بڑے اصلاح پسندوں کو اس بحث میں شریک کیا جائے۔
دونوں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پرامن طریقوں اور اعتدال پسند وں کو انتہاپسندوں سے الگ کرنے میں مدددے کر تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔