عالمی تپش سے متعلق مستقبل کے اقدامات پر بات چیت کے لیے پیر، 24 ستمبر ایک اجلاس سے اقوامِ متحدہ ،نیو یارک میں منعقد ہو رہا ہے، جِس میں150ممالک کے سربراہان اور وفود شرکت کریں گے۔
بعد ازاں 27اور28 ستمبر کو وائٹ ہاؤس موسم کی تبدیلی پر ایک سربراہی اجلاس کا انعقاد کر رہا ہے جِس میں دنیا بھر کے اُن اقوام کےرہنما شرکت کریں گے جِن کے ممالک سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں۔
امریکہ نے تپش سے متعلق اقوامِ متحدہ کے کیوٹو پروٹوکول پر دستخط ضرور کیے ہیں لیکن اِس کی توثیق نہیں کی۔
اِلیٹ ڈِرینگر عالمی تبدیلیِ موسم پر پِیو سینٹر میں بین الاقوامی لائحہٴ عمل کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس ہفتے واشنگٹن میں ایک پر ہجوم اخباری کانفرنس میں اُنہوں نے کہا کہ عالمی سربراہان بے چین ہیں کہ امریکہ موسم کی تبدیلی کے بارے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے:
’وفود امیدیں لے کر آ رہے ہیں، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ انھیں کچھ شکوک و شبہات بھی لاحق ہیں اور وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ امریکی اقدام وسیع تر کو ششوں کے آڑے نہ آئے۔‘
کیوٹو معاہدہ وہ پہلا بین الاقوامی سمجھوتا تھا جِس میں موسم کی تبدیلی سے متعلق گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے تدارک کے اقدامات دیے گئے ہیں۔
بش انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اِس معاہدے میں یہ خرابی ہے کہ اِس میں ترقی پذیر اقوام کو اِس بات کا پابند نہیں کیا گیا کہ وہ مضر گیسوں کے اخراج کی کمی میں اپنا کردار ادا کریں۔
عالمی موسمی تبدیلی سے متعلق پِیو سینٹر کے سربراہ، آئیلین کِلاسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی ریاستوں نے اپنے طور پر گرین ہاؤس گیسوں کے تدارک کے لیے پروگرام مرتب کیے ہیں۔
کِلاسن نے مزید بتایا کہ کانگریس نےکثرتِ رائے سے متعدد قوانین پیش کیے ہیں جو گیسوں کے مضر اخراج پا قابو پانے اور اِس سے متعلق اقدامات پر امریکی کاروباری اداروں کی حمایت حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔
آئیلین کِلاسن کا خیال ہے کہ آنے والے بہار کے موسم کے اواخر تک امریکہ میں ایسے کسی قانون کے سامنے آنے کا کم ہی امکان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ 2010ء تک ہر حال میں ایسا قانون سامنے آ جانا چاہیئے۔
اِس بات کو واضح کرتے ہوئے، ایلیٹ ڈرینگر نے کہا کہ ،اِس طرح کے قواعد لاگو ہونے سے ترقی پذیر ممالک کو یہ ترغیب ملے گی کہ وہ بھی اِس طرف دھیان دیں۔
اُنہوں نے کہا کہ یہ امکان بذاتِ خود اِس امر کا متقاضی ہے کہ امریکہ نئے بین الاقوامی مذاکرات شروع کرنے کےلیے دل جمعی سے آگے بڑھے۔
ڈرینگر نے اِس امید کا اظہار کیا کہ اگلے ہفتے ہونے والے اجلاس عالمی تپش سے نمٹنے کے بین الاقوامی عزم کو مضبوط تر کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اور یہ کہ اِن اجلاسوں میں نئے کثیر القومی سمجھوتے کرنے کے لیے راہ ہموار ہوگی جو کہ رواں سال کے آخر میں بالی میں اقوامِ متحدہ کی طرف سے منعقد ہونے والی موسمی تبدیلی کی کانفرنس میں مزید پیش رفت کے لیے سودمند ثابت ہوں گے۔