Urdu ▪ وائس آف امریکہ غیر جانبدار خبریں | دلچسپ معلومات

VOANews.com

04 جنوری 2009 

آج وی او اے پر:

45 زبانوں میں خبریں
امریکہ میں بہتر زندگی کا خواب بکھر رہاہے

January 4, 2009

امریکہ میں معاشی سست روی اور روزگار کے مواقعوں میں کمی کے باعث کچھ تارکین وطن اپنے آبائی ملکوں  میں واپس جانے کا سوچ رہے ہیں۔امریکہ کی جنوبی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے قصبے  پیئرسن کا زیادہ تر انحصار ایک فصل فرن کی صنعت پر ہے۔

فوریڈا کی زراعت سے وابستہ کارکنوں کی ایک تنظیم  کا، جو تاریکن وطن کارکنوں کے حقوق کی نگہبانی کرتی ہے،کہناہے کہ فرن کے کھیتوں میں کام کرنے والے تقریباً پانچ ہزار کارکنوں کو ہفتے میں بمشکل دو یا تین دن کام ملتاہے۔
ایک کارکن مارسی لینو گل کو خدشہ ہے کہ آئندہ دنوں میں کام میں مزید کٹوتی ہوسکتی ہے۔اس کا تعلق میکسیکو کے علاقے مونٹری سے ہے اور اسے تنہا اپنے بچوں کی نگہداشت کرنا ہوتی ہے۔ان کا کہناہے کہ اپنے تین بچوں کی ضروریات کے لیے انہیں ہر روز سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔

وہ ہر صبح سویرے فرن کے مقامی فارم پر کام شروع کرتا ہے۔ گل اس سے قبل وہاں کل وفتی ملازم تھا ۔ لیکن ان کا کہناہے کہ معاشی سست روی نے زندگی مشکل بناد ی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں ہفتے میں تقریباً 30 گھنٹے کام کرتاہوں اور مجھے جو مزوری ملتی ہے وہ گذارے کے لیے کافی نہیں ہے۔اس سے قبل میں ہرہفتے 60 گھنٹے کام کیا کرتا تھا۔وہ فرنری میں دیکھ بھال کا کام کرتاہے۔
فرن کی صنعت ابھی تک 2004 کے سمندری طوفان کے اثرات سے پوری طرح بحال نہیں ہوئی ۔ اس طوفان کے نتیجے میں 7 کروڑ 60 لاکھ مالیت کے فرن کی فصلیں اور اس کی نرسریاں تباہ ہوگئی تھیں۔

گل 1977 میں امریکہ آئے تھے جب ان کی عمر صرف 19 سال تھی۔ وہ اب میکسیکو واپسی کا سوچ رہے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ جب میں یہاں آیا تھا تو میں نے خوب پیسہ کمایا لیکن آج کل یہ سب کچھ ناممکن ہوگیا ہے۔ آج کل زیادہ کام نہیں ملتا۔

گل کہتے ہیں کہ انہوں نے میکسیکو واپسی کے امکان کے بارے میں ابھی اپنے بچوں سے مشورہ نہیں کیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا بیٹا ہاویئر 18 سال کا ہے اور وہ ملازمت کرتا ہے۔ لیکن ان کے دو چھوٹے بچے 16 سالہ جینت اور 11 سالہ مارسی لینو ابھی اسکول جاتے ہیں۔

جینت کو آئندہ کی فکر ہے۔ ان کا کہناہے کہ ہمارے والد ہماری ہر تعلیمی ضرورت پوری کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کا کہناہےکہ اگر ان کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو میں فٹ بال اور دوسری غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکوں گی اور اس طرح میں اچھے گریڈ حاصل نہیں کرسکوں گا

گل اضافی پیسے کمانے کے لیے خود بھی پھل اگاتے ہیں جن میں لیموں، امرود اور سیب شامل ہیں۔

وہ کبھی کبھی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اضافی آمدنی کے لیے کام کے بعد اپنے  دوستوں کی گاڑیوں کی مرمت بھی کرتے ہیں۔وہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنا کچھ فرنیچر تک فروخت کرچکے ہیں۔

 گل 24 سال سے فرن کی صنعت سے وابستہ ہیں اور ان کے پاس امریکی شہریت ہے۔ لیکن میکسیکو کے اس تارک وطن کا کہناہے کہ انہیں اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ میں ایک بہتر زندگی گذارنے کا ان کا خواب اب بکھر رہاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وہ ملک ہے جس نے مجھے خوش آمدید کہا تھا اور میں اسے پسند کرتاہوں ۔ پھر میکسیکو میں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن  مسئلہ یہ ہے کہ اگر امریکی معیشت کا یہی حال رہا جیسا کہ اس وقت ہے تو پھر یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

 گل کو امید ہے کہ امریکی معیشت بحال ہوجائے گی جس کے بعد انہیں فرن کی صنعت میں مزیدکام ملنا شروع ہوجائےگا اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جوکچھ بھی ممکن ہوا کریں گے۔

 


E-mail This Article اس صفحے کو ای میل کیجیے
Print This Article قابل چھپائی صفحہ
  اہم ترین خبر

  مزید خبریں
امریکی خاتون اول کا کردار
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نظرِ ثانی کی جائے: برطانوی وزیرِ خارجہ
ہانگ کانگ: فضائی آلودگی کے باعث لوگ شہر چھوڑرہے ہیں
اقوامِ متحدہ کے احاطے پر حملہ: بان گی مون کا شدید ردِ عمل
محمد آصف ڈوپ ٹیسٹ  کیس: آئی سی سی کی پی سی بی سے جواب طلبی
ملی بینڈ بیان: ’بھارت کو بن مانگے مشورے کی ضرورت نہیں‘
افغان جنرل ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہوگیا
مشرق وسطیٰ میں اثر ورسوخ بڑھانے کی چینی کوششیں
غزہ میں اقوامِ متحدہ کا احاطہ اور ہسپتال اسرائیلی گولا باری کا نشانہ
اوباما بش سے عبرت حاصل کریں
کیفی اعظمی کی شعری کائنات
لندن میں کشمیر فیشن شو:  بھارتی، پاکستانی اور انگریز  ماڈلز
خراسان اور  پنجاب کے مابین پانچ مفاہمتی  یادداشتوں پر دستخط
افغانستان: ہیلی کاپٹر حادثے میں جنرل سمیت 13فوجی ہلاک
پاکستان نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں آٹھویں نمبر پر
مزاحیہ فنکار شکیل صدیقی وطن واپس ، انتہا پسند ہندووں کی دھمکیوں نے بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا
”ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرنے کا تاثرغلط ہے“
بلوچستان کی واحد بڑی یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار