United States Holocaust Memorial Museum
ہالوکاسٹ انسائیکلوپیڈیا
شخصی کہانیاں
ایڈورڈ وییز
ڈاخو آزادی کے فوراً بعد۔
[انٹرویو: 2004]
مکمل نقل:
میں نے ڈاخو کے قریب ہی باہر جنگ ختم کی اور جب جنگ 5 مئی کے لگ بھگ ختم ہوگئی تو میں اُس چھوٹے سے گروپ میں شامل تھا جو ڈاخو حراستی کیمپ گیا تاکہ جرمن وہرماخٹ ہسپتال کے ساتھ اُس وقت تک رابطہ قائم کیا جائے جب تک کہ دو ہفتے قبل اِس نے امریکی ہسپتال کی جگہ لے لی۔ میرے فرائض میں سے ایک یہ تھا کہ میں ہر صبح بیرکوں اور ہسپتالوں سے پہنچنے والی مردہ لاشوں کو وصول کر کے اُن کو ٹھکانے لگواؤں۔ اِس تمام کارروائی کا اندراج جرمن کلرکوں کا عملہ بہت احتیاط سے کرتا تھا۔ ایک دن جب میں رپورٹ وصول کرنے پہنچا تو کلرکوں میں سے ایک نے کہا کہ رپورٹ تو تیار ہے مگر کرنل صاحب نے ابھی اس پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ لہذا مجھے کرنل کے آنے تک چند منٹ انتظار کرنا پڑا۔ میں کمرے کے پچھلی طرف جا کر ایک ڈیسک پر بیٹھ گیا اور دوسرے جرمن کلرکوں سے گپ شپ کرنے لگا۔ بالآخر کرنل آ گیا تو ان میں سے ایک کلرک اچک کر یہ کہتا ہوا کھڑا ہوا "آختونگ"۔ کرنل نے جواب میں کہا "ہیل ہٹلر" یعنی "ہٹلر کا اقبال بلند ہو"۔ پھر اُس کی نظر کمرے کے پچھلی طرف او۔ ڈی کی وردی پر پڑی اور اُس نے پہلی مرتبہ مجھے اپنے کمرے میں بلایا جہاں اس نے مشروط رد عمل کے متعلق وضاحت کی اور کہا کہ وہ گزشتہ 15 سال سے اسی انداز میں بات کرتا رہا ہے اور یہ ایک مشروط رد عمل تھا۔
پیدا ہوا: امریکہایڈورڈ ایس وییز جو میری لنڈ کے شہر گیتھرز برگ کے رہائشی ہیں وہ ڈاخو حراستی کیمپ کی آزادی سے فوراً بعد وہاں موجود تھے۔
 
متعلقہ مقالات:
Copyright © United States Holocaust Memorial Museum, Washington, D.C.