United States Holocaust Memorial Museum
ہالوکاسٹ انسائیکلوپیڈیا
ریاستہائے متحدہ امریکہ اور ہالوکاسٹ
دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کا حدف بننے والے یہودی اور دوسرے لوگوں کو بچانا امریکی حکومت کی ترجیح نہیں تھا اور نہ ہی اتحادیوں کے پالیسی سازوں کی طرف سے یہ ہمیشہ واضح رہا کہ وہ جرمن صفوں کے پیچھے اِن افراد کو بچانے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کیسے کر سکتے ہیں۔ جذوی طور پرسام دشمنی یعنی یہودیوں کے خلاف تعصب یا ان سے دشمنی کی وجہ سے تنہا کر دینے کا عمل، اقتصادی بدحالی، اور غیر ملکیوں سے نفرت یعنی غیر ملکیوں کے خلاف تعصب یا اُن سے نفرت اور سیکٹری آف اسٹیٹ کارڈیل ہل کی سربراہی میں امریکی محکمہ خارجہ کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی نے مہاجرین کے لئے امریکہ میں داخل ہونے کی خاطر ویزا حاصل کرنا دشوار کر دیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے نسل کشی کی خبروں کو مشتہر کرنے میں بھی سست روی سے کام لیا۔ اگست 1942 میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوئی جس میں یورپ کے یہودیوں کو مکمل طور پر تباہ کرنے سے متعلق نازیوں کے منصوبوں کی تصدیق کی گئی۔ بین الاقوامی یہودی کانگریس کے نمائیندے گرہارٹ ریگنر کی طرف سے بھیجی گئی اِس رپورٹ کو دوسرے سرکاری اہلکاروں تک نہیں پہنچایا گیا۔ امریکی ربی اسٹیفن وائز کو بھی یہ رپورٹ موصول ہوئی تھی مگر امریکی محکمہ خارجہ نے اُنہیں بھی اِس خبر کا اعلان کرنے سے روک دیا۔

امریکی صحافت اکثر نازیوں کی قتل و ‏غارت گری کو پوری طرح سے شائع نہیں کرتی تھی۔ 1943 میں پولینڈ کے کوریر جان کرسکی نے یہودیوں کے قتلِ عام سے متعلق صدر فرینکلن ڈی۔ روزویلٹ کو اُن رپورٹوں کے بارے میں آگاہ کیا جو اُنہیں یہودی بستی یعنی گھیٹو کے یہودی لیڈروں کی طرف سے موصول ہوئی تھیں۔ مگر اِس بارے میں کوئی بھی فوری قدم نہیں اٹھایا گيا۔ امریکی کانگریس نے دو بار ایک قانونی مسودے کو مسترد کردیا جس کے تحت 10 ھزار مہاجر بچوں کو کسی رشتہ دار کے بغیر تنِ تنہا امریکہ آنے کی اجازت دی جانی تھی۔

19 اپریل 1943 میں برطانوی اور امریکی نمائندے برمودا میں ملے تاکہ جنگ کے دوران مہاجرین کے مسئلے کا کوئی حل تلاش کرسکیں۔ مگر برمودا کانفرنس سے کوئی بھی ٹھوس تجویز برآمد نہیں ہوئی۔ جنوری 1944 میں روزویلٹ نے محکمہ مالیات کے تحت جنگی مہاجر بورڈ قائم کیا تاکہ خطرے سے دوچار مہاجروں کو بچانے کیلئے سہولتیں فراہم کی جاسکیں۔ نیویارک میں فورٹ آنٹیریو نے ظاہری طور پر مہاجروں کیلئے آزاد بندر گاہ کے طور پر کام شروع کیا۔ تاہم جن مہاجرین کو فورٹ آنٹیریو لایا گيا وہ مقبوضہ نازی علاقوں کے بجائے آزاد کرائے گئے علاقوں سے تھے۔

1944 کے موسمِ بہار تک اتحادیوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ آشوٹز۔ برکینو کی قتل گاہوں میں افراد کو ہلاک کرنے کیلئے زہریلی گیس استعمال کی جاتی تھی۔ یہودی راہنماؤں نے امریکی حکومت سے درخواست کی کہ گیس چیمبرز اور اِن کیمپوں کی طرف جانے والی ریل گاڑیوں کو بنباری کے ذریعے تباہ کر دیا جائے مگر اِس میں کامیابی نہ ہو سکی۔ 20 اگست سے 13ستمبر 1944 تک امریکی فضائیہ نے برکینو کے گیس چیمبروں سے صرف پانچ میل دور واقع آشوٹز۔ مونووٹز صنعتی کمپلیس پر بمباری کی۔ تاہم امریکہ نے اِن لوگوں کے بچاؤ کی سرگرمیوں میں عدم مداخلت کی پالیسی جاری رکھی اور اِس دوران نہ تو گیس چیمبرز پر اور نہ ہی قیدیوں کو لیجانے والی ریل گاڑیوں پر بمباری کی۔

Copyright © United States Holocaust Memorial Museum, Washington, D.C.