United States Holocaust Memorial Museum
ہالوکاسٹ انسائیکلوپیڈیا
پناہ گزینوں کی موجودہ صورتِ حال
ہالوکاسٹ سے پہلے اور اس کے دوران جب زندگیاں اور برادریاں خطرے میں ہوتی ہیں تو لوگ وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں۔ لہذا جب بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے تو یہ قتلِ عام کی یا پھر اس کے خطرے کی نشانی ہوتی ہے۔ سوڈان کے دارفور علاقے میں جہاں امریکی ہالوکاسٹ میموریل میوزیم نے جولائی 2004 میں قتلِ عام کی ہنگامی صورتِ حال کا اعلان کیا تھا، دارفور کے لاکھوں لوگ بھاگ کر سرحد پار کرتے ہوئے چڈ پہنچ گئے۔ مذید 20 لاکھ کے لگ بھگ لوگ دارفور کے اندر بے دخل ہو گئے جبکہ چار لاکھ کے قریب افراد تشدد سے یا پھر مخصوص گروپوں پر ظلم توڑے جانے کے اقدامات کے نتیجے میں جانیں گنوا بیٹھے۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے ظلم و ستم سے بچ کر فرار ہونے والے یہودیوں اور دیگر افراد کی مدد کیلئے پہنچنے میں ناکامی کو اخلاقی طور پر قبول کرنے اور جنگ کے آخر میں بے دخل ہونے والے بہت سے افراد کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت کے باعث بہت سی بین الاقوامی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ 1948 میں انسانی حقوق کے عالمی منشور میں کہا گیا کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظلم و ستم سے بچنے کیلئے پناہ تلاش کرے اور اسے حاصل کرے۔ 1950 میں پناہ گذینوں کیلئے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر یعنی UNHCR کا دفتر قائم کیا گیا اور پھر 1951 میں پناہ گذینوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے کنونشن نے اِس بین الاقوامی ذمہ داری کی بنیاد کا تعین کر دیا کہ وہ ایسے افراد کو اُن ملکوں میں واپس نہیں بھیجیں گے جہاں اُن کی زندگیوں اور اُن کی آزادی کو خطرہ لاحق ہو۔ یہ ذمہ داری امریکہ نے باقاعدہ طور پر 1968 میں قبول کی۔

پناہ گذینوں کے اس کنونشن میں ایسے شخص کو پناہ گذیں قرار دیا گیا ہے جو "نسل، مذہب، قومیت اور کسی مخصوص سماجی گروپ یا سیاسی مؤقف سے وابستگی کی بنا پر ظلم و ستم کے جائز خوف کی بنا پر اپنی قومیت والے ملک سے باہر ہو اور ایسے خوف کی وجہ سے وہ واپس اپنی قومیت والے ملک میں نہ جا سکتا ہو یا نہ جانا چاہتا ہو یا اس کے پاس کسی بھی ملک کی قومیت نہ ہو اور جس ملک کا وہ رہائشی رہا ہو وہاں سے باہرہو اور واپس نہ جا سکتا ہو یا نہ جانا چاہتا ہو۔"

یہ وہ حساس فیصلے ہیں جن کی بنیاد پر پناہ گذینوں کی صورتِ حال کو بین الاقوامی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلے آج بھی پالیسیوں کا رُخ متعن کرتے ہیں۔ مذید براں ایسے "داخلی طور پر بے دخل ہونے والے افراد" جو قانونی طور پر "پناہ گذیں" نہیں کہلا سکتے کیونکہ اُنہوں نے کوئی بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کی ہے، ایک اور پیچیدہ مسئلہ پیش کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں کسی خاص موقع پر پناہ گینوں کے بحرانوں کی تعداد اور اُن کے حجم کے علاوہ امداد کی توقعات بین الاقوامی برادری کی صلاحیت سے اکثر بڑھ جاتی ہیں۔ جب بھی آبادیوں کو خطرہ درپیش ہوتا ہے تو کچھ افراد وہاں سے بھاگ کر محفوظ ملکوں میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم پناہ گذینوں کے حقوق کا تحفظ، اُن کیلئے محفوظ مقامات کی تلاش اور بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کی صورت میں امداد کی فراہمی سے متعلق مسائل وقت گذرنے کے ساتھ کم نہیں ہوئے ہیں۔ پناہ گذینوں کا تحفظ اور اُن کے بحران کے حل کی کوششیں قتلِ عام روکنے کی حالیہ کوششوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔

Copyright © United States Holocaust Memorial Museum, Washington, D.C.