بظاہر نیویارک شہر میں گہما گہمی ہے۔ مین ہیٹن کی سڑکوں پر پیلے رنگ کی ٹیکسیاں گھوم رہی ہیں۔ بسیں اور مسافر گاڑیاں اپنے وقت پر آجارہی ہیں اور ٹایم سکوائر ہمیشہ کی طرح جگمگا رہاہے۔ پرانے شہر میں سیاح وال سٹریٹ کے نشان کے ساتھ تصویریں کھچوا رہے ہیں۔ لیکن یہاں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ اس گہما گہمی کے پس پردہ لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔
ریئل اسٹیٹ کی پروفیسر، روز میری کا کہنا ہے کہ وال سٹریٹ پر ہر ایک ملازمت دوسرے شعبوں میں تین نوکریوں تک کو سہارا دیے ہوئے تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کا اثر ہوٹل کے کاروبار میں فورا محسوس ہوتا ہے اور ٹیکسیاں اور لیمو چلانے والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
ڈرائیور ہوزے آبریو کہتے ہیں کہ ان کو نوکری ڈھونڈنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ملازمت کی تلاش میں سڑکوں پر گاڑی گھماتا رہتا ہوں، لیکن پیسے کی کمی سب لوگوں کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
ایسٹ ریور کی دوسری جانب مین ہیٹن ہیج فنڈ کے منیجر پیٹریک ڈی اینجلو کا کہنا ہے کہ لوگ واقعی پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اقتصادی بحران کا مقابلہ کرنا ہے، ورنہ ہم معاشی پریشانی میں بری طرح پھنس جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے برعکس اقتصادی ڈیپریشن ہمیں بہت بھاری پڑے گا۔ اس سے میں بہت ڈرتا ہوں، کیونکہ جہاں موجودہ مسائل کے اثرات وقتی ہوں گےجب کہ ڈیپریشن کی کیفیت بہت لمبے عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔
ایسایاح ایک فٹنس ٹرینر ہیں اور مین ہیٹن کے ایک جم میں وال سٹریٹ کے کئی تاجروں اور بینکرز کو ورزش کرواتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ اس سے بدتر صورت حال انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔ کچھ افراد نے تو یہ بھی کہا ابھی صرف طوفان کی شروعات ہیں، اور عام آدمی آنے والی مصیبت سے ناواقف ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر افراد حقیقت نہیں جانتے۔
سعودیہ ڈیوس کہتی ہیں کہ میں باقائدگی سے خبریں دیکھتی ہوں۔ اس کے باوجود کبھی کبھی سمجھ نہیں آ تا کہ کیا ہو رہا ہے۔
سعودیا ڈیویس بروکلین میں کلیننگ کا کاروبار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتصادی مسائل کی وجہ سے ان کا کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وال سٹریٹ پر کام کرنے والےاب نئی ملازمتیں ڈھونڈ رہے ہیں اور حتہ کہ گھروں کی صفائی کرنے کو بھی تیار ہیں۔
ریمسی شیبر بینکنگ کے شعبے میں نوکری کرتے ہیں۔ ان کی آمدنی اتنی ہے کہ وہ اپر ایسٹ سائڈ کے علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ بینکنگ کے شعبے سے وابستہ کئی افراد ابھی تک اقتصادی بحران کی صورت حال سے خوفزدہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہر دن کام پر جاتے ہوئے ذہن میں یہی سوال ہوتا ہے، کہ آج کون سا بینک متاثر ہو گا۔ اور کتنے ادارے اقتصادی طوفان کی زد میں آ کر تباہ ہوں گے۔ آگے کیا ہو نے والا ہے، ہمارا ذہن اسی کشمکش میں رہتا ہے۔
شیبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بیگم کے ساتھ مل کر اس بحران سے بچنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ لیکن وہ نیو یارک چھوڑنا نہیں چاہتے۔ بقول شیبر کے یہاں کے دلکش مناظر اور دور دراز علاقوں سے آنے والے سیاحوں کو دیکھ کر دل پر سکون کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بجٹ میں کٹوتیوں اور اقتصادی غیر یقینی کے باوجود، نیو یارک کے حکام کا کہنا ہے کہ اس شہر کی ثقافت اور خوبصورتی کی ہر صورت حفاظت کی جائے گی۔