|
ایران کے لیے امریکی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت
|
ندیم یعقوب
واشنگٹن
November 26, 2008
|
|
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں براک او باما کی جیت کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی توقع کی جارہی ہے۔ بہت سے دانش وروں اور تجزیہ کار وں کا خیال ہے کہ امریکی قیادت صرف عراق اور افغانستان کے حوالے سے ہی اپنی حکمت عملی میں تبدیلی نہیں لائے گی بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل کو بھی تیزکرے گی۔
مشرق وسطیٰ اور خلیج میں ممکنہ تبدیلیوں کے پس منظر میں کچھ امریکی ماہرین اب امریکہ کی ایران پالیسی میں بھی تبدیلی اور نظر ثانی پر بھی زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کہ حکومتیں بدلنے کی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی۔
دفاعی امور کے ماہر اور کونسل آن فارن ایشوز کے رکن جوزف سرین سیونی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایران کے حوالے سے بھی وہی ماڈل اپنانا چاہیے جو لیبیا اور شمالی کوریا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ امریکہ اب حکومت بدلنے کی پالیسی سے ہٹ گیا ہے۔ عراق میں حکومت بدلنا آسان لگتا تھا لیکن یہ بہت مشکل اور مہنگا پڑا۔ اب ویسے بھی ہمارے پاس ایک نیا ماڈل موجود ہے۔ اس ماڈل کے تحت لیبیا نے سفارتی تعلقات کے بدلے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ترک کردیا۔ ایران کا معاملہ ذرا مشکل ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت بدلنے کی بجائے حکومت کا رویہ بدلنے پر عمل پیرا ہونا زیادہ مناسب لگتا ہے۔
کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ اگر سفارتی کوششوں کے ذریعے شمالی کوریا اور لیبیا کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے معاملات سلجھائے جاسکتے ہیں تو ایران کے ساتھ کیوں نہیں۔ یونیورسٹی آف ہوائی کی ڈاکٹر فریدہ فرحی کا کہنا ہے کہ مراعات کےساتھ دباؤ کی پالیسی سے مثبت نتیجہ حاصل کرنا ناممکن ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایران کے سیاسی نظام میں یہ ناممکن ہے۔
امریکہ کے تقریباً 20 ماہرین اور سفارت کاروں پر مشتمل ایک گروپ نے حال ہی امریکن پالیسی پراجیکٹ کے تحت رپورٹ شائع کی ہے جس میں ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی پر زور دیا گیا ہے۔
|
|
|