|
مسلم طلباء کی اسلام کے بارے میں منفی تاثرات دور کرنے کی کوشش
|
آمنہ خان
واشنگٹن ڈی سی
December 24, 2008
|
|
امریکن یونیورسٹی کی مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن اور انٹرنیشنل پیس اینڈ کانفلکٹ ریزلوشن پروگرام کے اساتذہ نے بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام اسلامی نظریات کے حوالے سے ایک سیمنار کا اہتمام کیا۔ جس میں مقررین کا کہنا تھاکہ مذاکرات سےلے کر معاہدوٕں تک ، امن کی حفاظت کے تمام طریقہ کار مختلف قرانی آیات ، تاریخی واقعات اور احادیث سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
پروگرام کے ڈائرکٹر، ڈاکڑ عبدالعزیز سعید کہتے ہیں کہ 11/9 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے منسلک خبروں کا طلبہ پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمپس میں بہت سے ایسے طلبہ ہیں جن کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں غلط تصورات ہیں۔ ایسے طلبہ بھی ہیں جنہیں اسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ لیکن طلبہ اسلام کے بارے میں جاننا بھی چاہتے ہیں۔ تو اس لیے اس بارے میں بات چیت کا ایک سلسلہ چل نکلا۔
اس سوال کے جواب میں کہ طلبہ عموما اسلام کے کن پہلووں کے بارے میں سب سے زیادہ سوال کرتے ہیں؟ ڈاکٹر ابو نمر کہتے ہیں کہ لوگ تشدد اور دہشت گردی کے موضوعات پر اسلامی احکاما ت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اور پھر ہم انہیں بتاتے ہیں کہ انتہا پسندی اور تشدد اسلامی احکامات کا نہیں، بلکہ یہ آمرانہ حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ مسلمان ممالک کے خلاف یورپی اور امریکی معاشی اور فوجی کاروائیوں کی وجہ سے بھی تشدد کے رجحانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان کاروائیوں میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔
یہ نقطہ نظر جان کر طلبہ کس طرح متاثر ہوتے ہیں؟ پروفیسر آئیشے کدا یفسی کہتی ہیں کہ مسلمان طلبہ عموما سب سے زیادہ حیران ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک مسلمان طلبہ کی حیرت کی ایک وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند صدیوں میں پیش آنے والی بیشتر جنگوں کے بعد، مسلمان خود بھی شاید اپنے مذہب کی پر امن روایات سے آگاہ نہیں اوراب یہ ہمارے لیے ایک حیران کن بات ہے۔
طلبہ بھی لوگوں تک اسلام کے بارے میں معلومات پہنچانے کے لیے لیکچر کے اس سلسلے کو ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔ مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی ایک رکن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب اور روایات کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے کی ذمہ داری اداکرنی چاہیے۔
اس لیکچر میں شامل ہونے والے طلبہ اور اساتذہ، سبھی کو امید ہے کہ2009 میں اس حوالے سے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں مزید طلبہ شرکت کریں گے، اوریہ سلسلہ واشنگٹن ڈی سی کی دوسری یونیورسٹیوں تک بھی پھیلایا جائے گا۔
|
|
|