Urdu ▪ وائس آف امریکہ غیر جانبدار خبریں | دلچسپ معلومات

VOANews.com


No Articles Found
45 زبانوں میں خبریں
Editorials
طالبان کی عورتوں کے خلاف جنگ
October 2, 2006

 

افغانستان کی پارلیمینٹ کی رکن فریبہ احمدی نے کہا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن صفیہ

Women voting in Afghanistan's elections

افغان عورتیں ووٹ ڈال رہی ہیں

اماجان کا قتل عورتوں کو اس راہ سے نہیں ہٹا سکے گا جس پر ہم گامزن ہیں۔ محترمہ صفیہ اماجان کو جوسابق ٹیچیر اور اسکول کی منتظم تھیں،اور صوبہ قندھار میں عورتوں کے شعبہ کی سربراہ تھیں، اپنے گھر سے آفس جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔وہ طالبان پر کڑی نکتہ چینی کیا کرتی تھیں۔

 

طالبان کے ایک کمان دار نے اِس حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا اور دوسری افغان عورتوں کو قتل کی دھمکی دی۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا کہ محترمہ اماجان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے تک ا جائے گا۔افغانستان کے دشمنوں کو جان لینا چاہیئے کہ ہمارے پاس صفیہ اماجان جیسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جو اِس عظیم ملک کی خدمت کرتے رہیں گے ۔

 

صدر جارج ڈبلیو بُش نے کہا ہے کہ امریکی عوام، صفیہ اماجان کے غم میں افغان عوام کے شریک ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:

 

ان کے انتقال سے ہمیں اِس دشمن کی فطرت کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا کوئی ضمیر نہیں ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ خوف پھیلایا جائے، اور اتنا تشدد کیا جائے کہ ہم واپس چلے جائیں اور انہیں من مانی کرنے دیں۔ اور یہ بات نا قابلِ قبول ہے۔

 

 2001ءمیں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد، افغان عورتوں نے شاندار ترقی کی ہے ۔ ستمبر 200ءمیں پارلیمینٹ کے ایوانِ زیریں کی دو سو انچاس نشستوں کے لیئے جو انتخاب ہوا، اس میں طالبان کی دہشت گردی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جن ایک کروڑ بیس لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں نے ووٹ ڈالا ان میں بہت سی عورتیں شامل تھیں۔ ارکانِ پارلیمینٹ کی تقریباً ایک چوتھائی تعداد عورتوں پر مشتمل ہے ۔ملک کی صوبائی کونسلوں کی چار سو بیس نشستوں میں سے ایک سو بیس سے زیادہ نشستیں افغان عورتوں کے پاس ہیں۔ 2005ءمیں پانچ لاکھ سے زیادہ افغان لڑکیاں پہلی بار اسکولوں میں داخل ہوئیں۔

 

افغان عورتوں نے جو ترقی کی ہے، طالبان نے اسے مٹانے کا عہد کیا ہوا ہے ۔اس سال طالبان باغیوں کے حملوں میں جو تیزی آئی ہے، ان میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔لڑکیوں کے اسکولوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن افغان لڑکیاں برابر اسکول جا رہی ہیں جیسا کہ پروان صوبے کے گاوٴں مولئے کے ایلیمینٹری اسکول میں ہو رہا ہے۔ اسکول کے ٹیچر محمد اگل نے کہا کہ یہاں پکی سڑکیں، کنوئیں، شفا خانے، غرض کچھ بھی نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجودہم نے سکول کو ترجیح دی۔

صدر بُش نے کہا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ آزاد معاشرے کا انحصار پڑھے لکھے شہریوں پر ہوتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیئے امریکہ ہر مشکل کام کرنے کو تیار ہوگا۔


E-mail This Article اس صفحے کو ای میل کیجیے
Print This Article قابل چھپائی صفحہ