وائٹ ہاوس کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2009 کے لیے امریکہ میں بجٹ خسارے کا تخمینہ 482 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے جس کی نمایاں وجوہات جنگی اخراجات، ٹیکس ری بیٹس اور معیشت کی سست شرح نمو بتائی جارہی ہیں۔ جبکہ حالیہ برسوں میں ہاوسنگ انڈسری میں آنے والے بحران، تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ، مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافے نے بھی امریکی عوام میں حکومت کی معاشی کارکردگی کے بارے میں شبہات کو جنم دیا ہے۔ مارک وائز بروٹ معاشی امور پر تحقیق کرنے والے ایک ممتار ادارے سینٹر فار اکنامک پالیسی کے کو۔ ڈائیرکٹر ہیں۔ وائس آف امریکہ نے ان سے صدر بش کے ادوارِ میں ان کی معاشی کارکردگی کے بارے میں پوچھا۔
مارک وائز بروٹ کا کہنا تھا کہ معیشت کے حوالے سے صدر بش کی کارکردگی بہت مایوس کن رہی ہے۔ اجرت یا تنخواہوں میں اضافہ تقریباً نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ جبکہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں بھی کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہیں رہی۔ صدر کلنٹن کے دونوں ادوار میں 2 کروڑ 22 لاکھ کے قریب روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے گئے جبکہ صدر بش کی دوسری مدتِ صدارت اختتام کے قریب ہے اور روزگار کے نئے مواقعوں کی تعداد 50 لاکھ بھی نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی بش انتظامیہ کی کارکردگی کوئی قابلِ رشک نہیں رہی ہے۔
صدر بش کی معاشی پالیسیوں کا دفاع کرنے والے انھیں حالات کا شکار بھی کہتے ہیں۔ یعنی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، جنگی اخراجات اور امریکہ میں ہاوسنگ کابحران، ہیریٹج فاونڈیشن کے اسکالر جے ڈی فاسٹر صدر کے دفاع میں ایک نکتہ اور بھی پیش کرتے ہیں۔
جے ڈی فاسٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں معاشی کارکردگی کی پوری ذمہ داری صدر پر عائد نہیں ہوتی۔ بیشتر منصوبے صدر کانگریس کو پیش کرتا ہے اور اسکے بعد کانگریس ان پر قانون سازی کرتی ہے۔ مثلاً ٹیکسوں میں کٹوتی صدر بش کامنصوبہ تھا جسے کانگریس نے پاس کیا اور یہ معیشت کے لیے بہت سود مند ثابت ہوا لیکن صدر کے بہت سے منصوبوں کو کانگریس نے یا تو رد کردیا یا پھر ان پر قانون سازی اس انداز میں ہوئی کہ ان سے معیشت کو فائدہ نہیں ہوا۔ جیسے سرکاری اخراجات جو بش انتظامیہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ کررہی ہے، کانگریس نے انھیں کم کرنے کے بجائے بڑھایا ہے۔ تو اگر صدر بش کے معاشی منصوبوں کی بات کی جائے تو ان کی کارکردگی اچھی رہی ہے لیکن اگر نتائج کو سامنے رکھا جائے تو کارکردگی محض اوسط رہی۔
لیکن کانگریس یا حالات پر ذمہ داری عائد کرنے کی دلیل بہت سے حلقوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے اور وہ کسی بھی امریکی صدر سے وابستہ برسوں پرانے محاورے یعنی ہر معاملے کی حتمی ذمہ داری صدر پر عائد ہونے کی معنویت پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
معیشت کو بہتر بنانے میں کانگریس یقینناً کچھ کردار ضرور ادا کرتی ہے لیکن صدر کو ایک قائدانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے جس سے معیشت کو نقصان پہنچانے والے رجحانات کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً ہاوسنگ انڈسٹری میں اتنے زبردست بحران کا براہ راست ذمہ دار تو کسی صدر کو نہیں ٹھرایا جاسکتا لیکن وہ صدر کی حیثیت سے عوام کو خبردار ضرور کرسکتے تھے کہ ہاوسنگ مارکیٹ جس طرف جارہی ہے وہ ایک بلبلے کی صورت اختیار کرسکتی ہے اسلیے عوام گھر خریدنے سے باز رہیں۔ اندازہ کریں کہ اس ہاوسنگ بحران کے نتیجے میں 80 کھرب ڈالرز داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
جے ڈی فوسٹر یہ سمجھتے ہیں کہ صدر بش کو معاشی امور کے حوالے سے ایک بہترین صدر کے طور پر نہیں یاد رکھا جائے گا لیکن ان کی کارکردگی بہت زیادہ بری بھی نہیں رہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ریگولیٹوری پالیسیز اتنی اچھی نہیں رہیں لیکن ٹیکس پالیسیز اچھی رہیں،سرکاری اخراجات کے معاملے میں صدر بش نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی لیکن ان کی تجارتی پالیسیز بہت اچھی رہیں، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدر بش کی معاشی کارکردگی ملی جلی رہی جیسے کہ امریکہ کے اکثر صدور کی رہی ہے۔ وہ اگلے امریکی صدر کو ایک ایسی معیشت منتقل کرکے جارہے ہیں جو اب ترقی کی جانب گامزن ہے۔
حالانکہ معیشت میں لوگوں کے تاثر سے زیادہ ہندسوں کی اہمیت ہوتی ہے اور معاشی امور کے بہت سے ماہرین صدر بش کی معاشی کارکردگی کو زیادہ اچھے گریڈز دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔