بیجنگ اولمپکس ماضی کے اولمپکس سے اس اعتبار سے مختلف ہے کہ یہ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جسے ایک بند ملک خیال کیا جاتا ہے اور چین کی بے مثال معاشی ترقی کے باوجود دنیا کی کئی انسانی تنظیموں کو وہاں معاشرتی آزادیوں کے بارے میں تحفظات ہیں۔ جس کا اظہار دنیا کے مختلف شہروں میں اولمپک مشعل کے جلوسوں کے دوران ہونے والے مظاہروں میں ہوا۔
اس سال کے شروع میں تبت میں مظاہرین کے خلاف چینی حکومت کی سخت پکڑ دھکڑ ایک عرصے تک عالمی میڈیا کا موضوع بنی رہی اور اب بھی گاہے گاہے اس بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
چینی حکام نے انٹرنیٹ کی کئی سائٹس کو اپنے ملک میں بین کررکھا ہے۔ اولمپکس کی کوریج پر چین جانے والے صحافیوں نے انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں کو اپنی رپورٹوں کا موضوع بنایا اور چین سے یہ پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین میں اولمپکس سے چینی باشندوں کو غیر ملکوں سے براہ راست رابطے کا موقع ملے گا جس کے اثرات وہاں کے معاشرے پر مختلف انداز میں ظاہر ہوں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اولمپکس چین کے سیاسی ماحول اور شہری آزادیوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔
پیو کے حالیہ رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق93 فی صد چینیوں کا خیال ہے کہ اولمپکس سے چین کا بین الاقوامی امیج بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہناہے کہ اولمپکس چین کے لیے ایک بڑے امتحان سے کم نہیں ہیں کیونکہ دنیا کی نظریں چین پر جمی ہیں اور کوئی بھی چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ اس کے لیے ایک بڑی مشکل کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی حکام اولمپکس کے انتظامات کو ہر لحاظ سے فول پروف بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔