اگرچہ نیویارک کاشمار دنیا کے امیر ترین شہروں میں کیا جاتا ہےلیکن شہر کے محکمہ صحت اور انسانی وسائل کے مطابق وہاں 23 فی صد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ملک بنگلہ دیش کا گرامین بینک نیویارک کے غریبوں کی زندگی تبدیل کرنا چاہتاہے۔
گذشتہ 31 برس سے بنگلہ دیش کی خواتین مائیکرو کریڈٹ کے فوائد سے فیض یاب ہورہی ہیں۔ یہ سب گرامین بینک سے ممکن ہوا ہے جس کی بنیاد نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے رکھی تھی۔ یہ بینک کاروبار شروع کرنے کے لیے آسان قرضے فراہم کرتا ہے۔
غریب ترین افراد کو قرضے دینے کے تصور نے ہزاروں افراد کو غربت کی زندگی سے نکلنے میں مدد دی اور دنیا کے کئی ممالک نے ایسے ہی پراجیکٹس کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ بنگلہ دیش میں غربیوں کی مدد کرنے والے اس بینک نے اب امریکہ میں کام شروع کیا ہے اور وہ الویرا میڈینا جیسی غریب خواتین کی مدد کررہا ہے۔ الویرا کا تعلق ڈومینیکن ری پبلک سے ہے اور وہ نیویارک میں آباد ہیں۔
میڈینا کوئینز کے علاقے میں قائم اپنے نئے ہیئر سیلون کو ترقی دینا چاہتی ہیں جس کے لیے انہوں نے گرامین بینک سے فرنیچر اوردوسری چیزوں کی خریداری کے لیے تین ہزار ڈالر کا قرضہ لیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس قرضے سے یقنی طورپر مجھے مدد ملی ہے۔ اس سے پہلے میں نے کچھ لوگوں سے قرض لیا تھا مگر ان کا سود بہت زیادہ تھا۔ گرامین بینک نے مجھے کاروبار کے لیے بہت کم شرح سود پر قرضہ دیا۔ ماہانہ قسط بھی کم ہے جس سے مجھے کافی آسانی ہوئی ہے۔
گرامین بینک کی توجہ ان افراد پر مرکوز ہے جو روائتی بینکوں سے قرض نہیں لے سکتے۔ بہت سے افراد کی کوئی کریڈٹ ہسٹری نہیں ہوتی۔ وہ بہت تھوڑی انگریزی بولتے ہیں اور وہ نئے تارکین وطن ہیں جنہیں قرضے کی پیچیدہ درخواستیں مکمل کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ گرامین بینک کی امریکہ میں شاخ قائم کرنے کے لیے سینیئر وائس پریذیڈنٹ شاہ نواز بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روائتی قرضے کے نظام میں لوگوں کو بینک کے پاس جانا پڑتا ہے جبکہ گرامین بینک خود چل کرلوگوں کے پاس جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے ذہن میں کاروبار کے منصوبے ہوتے ہیں مگر وہ اسے تحریر میں نہیں لاسکتے۔ چنانچہ ان کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ عام بینکوں سے قرض لے سکیں۔ مگر گرامین بینک کا طریقہ کار یہ ہے کہ ہم ان سے ان کے کاروباری منصوبے کے بارے میں تحریری طورپر کچھ نہیں پوچھتے۔
گرامین بینک قرض لینے والے پانچ افراد کے ایک گروپ کا پوچھتے ہیں جو کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ بینک کے مطابق یہ گروپ بینک کاقرضہ واپس کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے۔ ہفتے میں ایک بار قرض لینے والے اپنے قرضے کی قسط ادا کرنے کے لیے سینٹر میٹنگ پر ملتے ہیں۔
اس نظام کے بارے میں میڈینا کہتی ہیں کہ شروع میں ایسے پروگرام پر اعتبار کرنا مشکل تھا۔ میں نےاس سے پہلے ایسے کسی پروگرام کے بارے میں نہیں سناتھاجس میں ذاتی سطح پر گروپ کے ساتھ کام کرنا پڑے۔ لیکن ان کے ساتھ بات چیت کرنے اور پروگرام کے ضابطوں کو سمجھنے اور گروپ کی میٹنگز میں جانے کے بعد میں نے اب اپنا خیال بدل لیا ہے۔
وہ ہرہفتے 66 ڈالرکی قسط دیتی ہیں جن میں صرف چھ ڈالر سود ہوتا ہے۔ یہ شرح قرضہ دینے والے افراد سے بہت کم ہے جو دو سوسے تین سو فی صد تک سود لیتے ہیں۔
گرامین امریکہ 301 افراد کو قرض دے چکاہے جو تمام کی تمام خواتین ہیں۔ اگرچہ وہ مردوں کو بھی قرض دیتے ہیں مگر شاہ نواز کا کہنا ہے کہ خواتین قرض کےسلسلے میں بہتر امیدوار ثابت ہوئی ہیں کیونکہ اپنے کنبے اور کمیونٹی میں وہ ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔
شاہ نواز کا کہنا ہے کہ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ خواتین کے لیے میٹنگ سینٹرز میں باقاعدگی سےجانا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ عام طورپر گھر میں ہوتی ہیں۔ ہمارے پروگرام کی بنیاد کمیونٹی پر ہے۔ مردوں کو بعض اوقات ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا ہے جبکہ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں رہتی ہیں۔
اس سال گرامین بینک نے 8 لاکھ ڈالرسے زیادہ کے قرضے دیے ہیں جن کی واپسی کی شرح 99 فی صد ہے۔ گرامین بینک کا کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ غریبوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے اپنے بینک کا دائرہ امریکہ کے دوسرے شہروں تک بڑھاناچاہتا ہے۔